یوم پیدائش 09 مارچ 1909
ہم کسی دین سے ہوں، قائلِ کردار تو ہیں
ہم ثناء خواںِ شہِ حیدرِ کرارؐ تو ہیں
نام لیوا ہیں محمدؐ کے پرستار تو ہیں
یعنی مجبور بہ احمد مختار تو ہیں
عشق ہو جائے کسی سے، کوئی چارہ تو نہیں
صرف مسلم کا محمدؐ پہ اجارہ تو نہیں
میری نظروں میں تو اسلام محبت کا ہے نام
امن کا، آشتی کا مہر و مروت کا ہے نام
وسعت قلب کا ، اخلاص و اخوت کا ہے نام
تختہِ دار پہ بھی حق و صداقت کا ہے نام
میرا اسلام نِگہ و نام میں ہے، بد نام نہیں
بات اتنی ہے کہ اب عام یہ اسلام نہیں
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے لیے منقبت
تُو تو ہر دین کے، ہر دور کے انسان کا ہے
کم کبھی بھی تیری توقیر نہ ہونے دیں گے
ہم سلامت ہیں زمانے میں تو انشاء اللہ
تجھ کو اک قوم کی جاگیر نہ ہونے دیں گے
امام حسین ؓ کے بارے میں
زندہ اسلام کو کیا تُو نے
حق و باطل دِکھا دیا تُو نے
جی کے مرنا تو سب کو آتا تھا
مر کے جینا سِکھا دِیا تُو نے
لب پہ اے شاہِ شہیداں ؓ تیرا نام آتا ہے
سامنے ساقیِ کوثرؐ لیے جام آتا ہے
مجھ کو بھی اپنی غلامی کا شرف دے دیجیو
کھوٹا سِکہ بھی تو آخر کبھی کام آتا ہے
( غزل)
ابھی وہ کمسن ابھر رہا ہے ابھی ہے اس پر شباب آدھا
ابھی جگر میں خلش ہے آدھی ابھی ہے مجھ پر عتاب آدھا
حجاب و جلوہ کی کشمکش میں اٹھایا اس نے نقاب آدھا
ادھر ہویدا سحاب آدھا ادھر عیاں ماہتاب آدھا
مرے سوال وصال پر تم نظر جھکا کر کھڑے ہوئے ہو
تمہیں بتاؤ یہ بات کیا ہے سوال پورا جواب آدھا
لپک کے مجھ کو گلے لگایا خدا کی رحمت نے روز محشر
ابھی سنایا تھا محتسب نے مرے گنہ کا حساب آدھا
بجا کہ اب بال تو سیہ ہیں مگر بدن میں سکت نہیں ہے
شباب لایا خضاب لیکن خضاب لایا شباب آدھا
لگا کے لاسے پہ لے کے آیا ہوں شیخ صاحب کو مے کدے تک
اگر یہ دو گھونٹ آج پی لیں ملے گا مجھ کو ثواب آدھا
کبھی ستم ہے کبھی کرم ہے کبھی توجہ کبھی تغافل
یہ صاف ظاہر ہے مجھ پہ اب تک ہوا ہوں میں کامیاب آدھا
کسی کی چشم سرور آور سے اشک عارض پہ ڈھل رہا ہے
اگر شعور نظر ہے دیکھو شراب آدھی گلاب آدھا
پرانے وقتوں کے لوگ خوش ہیں مگر ترقی پسند خاموش
تری غزل نے کیا ہے برپا سحرؔ ابھی انقلاب آدھا
کنور مہیندر سنگھ بیدی سحر
No comments:
Post a Comment