یوم پیدائش 13 مارچ 1998
زلف چہرے سے ہٹاؤ تو کوئی بات بنے
جام نظروں سے پلاؤ تو کوئی بات بنے
غم ہیں اتنے کہ دو بوندوں سے مرا کیا ہو گا
سارا میخانہ پلاؤ تو کوئی بات بنے
یاد میخانے کے آداب سبھی ہیں مجھ کو
سارے رندو کو بلاؤ تو کوئی بات بنے
ہے اگر حسن ملا تو یہ ضروری ہے صنم
اپنا دامن بھی بچاؤ ، تو کوئی بات بنے
تم مرے غم پہ اٹھاؤ نہ یوں انگلی ایسے
دل اگر تم بھی لگاؤ تو کوئی بات بنے
پہلے سیکھو کے وفا یار کسے کہتے ہیں
پھر زباں ہم سے لڑاؤ تو کوئی بات بنے
مجھ کو معلوم ہے دنیا کی حقیقت اکبر
کچھ نیا مجھ کو بتاؤ تو کوئی بات بنے
ادریس اکبر
No comments:
Post a Comment