یوم پیدائش 28 جولائی 1943
جمال دلنشیں ترا ، مرا یہ مقتضائے دل
نہ دل کی آرزو ہو کیوں کہ ہو ترا نقاب گم
وہ جلوتیں بکھیر دے بساط گلستان میں
کلی کی گم رہے نفس ، ہو رنگ ہر گلاب گم
کہاں کہاں لہو گرا ، ہے ٹھوکروں کا کیا حساب
تمہارے دشت عشق میں ، ہوئے ہیں بے حساب گم
بروئے عاشقان زار ، کبھی تو رونما بھی ہو
ہو شب سے ماہ کو فرار ، سحر سے آفتاب گم
طلب ، امید ، آرزو کریں بھی زندگی سے کیا
بچا تھا جو وہ غتربود ، جو تھا بھی دستیاب گم
امین دلفگار سے سوال اب یہ کیا کریں
چرا کے مستیاں تری ، کہاں ہوا شباب گم
امین چغتائی
No comments:
Post a Comment