یوم پیدائش 14 مارچ 1964
کوئی مجھ کو مرا بھر پور سراپا لا دے
مرے بازو ، مری آنکھیں، مرا چہرہ لا دے
ایسا دریا جو کسی اور سمندر میں گرے
اس سے بہتر ہے کہ مجھ کو مرا صحرا لا دے
کچھ نہیں چاہئے تجھ سے اے مری عمرِ رواں
مرا بچپن، مرے جگنو، مری گڑیا لا دے
جس کی آنکھیں مجھے اندر سے بھی پڑھ سکتی ہوں
کوئی چہرہ تو مرے شہر میں ایسا لا دے
کشتئ جاں تو بھنور میں ہے کئی برسوں سے
اے خدا اب تو ڈبو دے یا کنارا لا دے
نوشی گیلانی
اب کس سے کہیں اور کون سنے جو حال تمہارے بعد ہوا
اس دل کی جھیل سی آنکھوں میں اک خواب بہت برباد ہوا
یہ ہجر ہوا بھی دشمن ہے اس نام کے سارے رنگوں کی
وہ نام جو میرے ہونٹوں پر خوشبو کی طرح آباد ہوا
اس شہر میں کتنے چہرے تھے کچھ یاد نہیں سب بھول گئے
اک شخص کتابوں جیسا تھا وہ شخص زبانی یاد ہوا
وہ اپنے گاؤں کی گلیاں تھیں دل جن میں ناچتا گاتا تھا
اب اس سے فرق نہیں پڑتا ناشاد ہوا یا شاد ہوا
بے نام ستائش رہتی تھی ان گہری سانولی آنکھوں میں
ایسا تو کبھی سوچا بھی نہ تھا دل اب جتنا بیداد ہوا
نوشی گیلانی
No comments:
Post a Comment