یوم پیدائش 23 مارچ 1975
مسرّتوں کا سماں دیر تک نہیں رہتا
دیا بجھے تو دھواں دیر تک نہیں رہتا
شباب آتا ہے لیکر پروں کو ساتھ اپنے
زمیں پہ کوئی جواں دیر تک نہیں رہتا
حساب سودِمحبّت کا یاد کیا رکھتے
ہمیں تو یاد زیاں دیر تک نہیں رہتا
مری خطاؤں کو گر وہ معاف کر دیتا
تو دل۔ پہ بار گراں دیر تک نہیں رہتا
فلاح اسکو بلاتی ہے۔ یہ خبر ہے جسے
وہ گھر میں سن کے اذاں دیر تک نہیں رہتا
جو مشکلات کا کرتے ہیں سامنا ھنس کر
یہ غم انہی کے یہاں دیر تک نہیں رہتا
ہزار کوششیں کر لیں مگر زمانے سے
کسی کا درد ۔نہاں دیر تک نہیں رہتا
یہ کیسا دور ہے آیا کہ ملک میں انجم
کہیں گمان ِاماں دیر تک نہیں رہتا
شاداب انجم، کامٹی
No comments:
Post a Comment