Urdu Deccan

Wednesday, March 10, 2021

ذوالفقار علی ذُلفی

 تمہارے حُسن کے دِلکش نظارے  مار  دیتے ہیں

کبھی گیسُو کبھی عارِض تمہارے  مار دیتے ہیں


ہے  تیری  مسکراہٹ   کا  اثر   اپنی  جگہ  لیکن

ہمیں تیری  نِگاہوں  کے  اِشارے  مار  دیتے  ہیں


بڑے  معصُوم ہیں  قاتل ہمارے  مار  کے ہم  کو

وہ کہتے ہیں  مقدر  کے  ستارے  مار  دیتے  ہیں


ہمارے  درد   رہتے  ہیں  ہمیشہ   بے اثر   ہم  پر

بہاٶ  مت  ہمیں  آنسو  تمہارے  مار  دیتے ہیں


کہاں دُشمن میں دَم  اتنا  ہمارے ساتھ  ٹکرائے

ہمیں  تو   چاہنے   والے  ہمارے   مار  دیتے  ہیں


محبت  کرنے  والوں  کے  مقدر  بھی  نرالے  ہیں

جو  بچ نِکلیں بھنور سے تو کنارے  مار دیتے ہیں


کہاں سے درد لاتا  ہے غزل میں اِس  قدر ذُلفی

تری غزلیں  ترے  اشعار  سارے  مار  دیتے ہیں


 ذوالفقار علی ذُلفی 


سرِ محفل تجھے سپنوں کی رانی میں نہیں کہتا

جو آنکھوں سے بتاتا ہوں زبانی میں نہیں کہتا


نہ ہو جس آنکھ کو پہچان کچھ اپنے پرائے کی

اُسے پاگل سمجھتا ہوں ٫ سیانی میں نہیں کہتا


یہاں مطلب کی خاطر ہی محبت لوگ کرتے ہیں

حقیقت ہے کوئی جھوٹی کہانی میں نہیں کہتا


مِری مطلب پرستوں سے بِگڑ جاتی ہے تب اکثر

کِسی کم ظرف کو جب خاندانی میں نہیں کہتا


مِلو جب بھی تو مِلتے ہی ذرا سا مسکرا دینا

مجھے دو اپنے دل پر حکمرانی میں نہیں کہتا


نجانے عشق ہو جائے اُسے میری غزل پڑھ کر

ابھی تک تو اُسے اپنی دِوانی میں نہیں کہتا


چُھپا کے تیر پھولوں میں تمہارا پھینکنا مجھ پر

اِسے ذُلفی محبت کی نشانی میں نہیں کہتا


ذوالفقار علی ذُلفی


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...