فنا باطل کی ہستی ہو چکی بس
مسلط حق پرستی ہو چکی بس
کرم کے ہیں ترے محتاج اب بھی
مکمل اپنی ہستی ہو چکی بس
ترے دیوانے تشنہ لب پھرے ہیں
مروج مئے پرستی ہو چکی بس
فضا آلود ہے گلشن سراپا
گلوں کی سرپرستی ہو چکی بس
ترے دعوے تو سب جھوٹے ہی نکلے
فنا شیطاں کی ہستی ہو چکی بس
صلہ سادہ دلی کا مل گیا ناں
یہ بیجا پیش دستی ہو چکی بس
بھلا کتنی گرے گی آدمیت
وفا مٹی سے سستی ہو چکی بس
چلو اب کوچ کا وقت آ گیا ہے
نگہبانیءِ ہستی ہو چکی بس
شمشاد شاؔد
No comments:
Post a Comment