Urdu Deccan

Monday, March 1, 2021

شمشاد شاد


فنا باطل کی ہستی ہو چکی بس

مسلط حق پرستی ہو چکی بس


کرم کے ہیں ترے محتاج اب بھی 

مکمل اپنی ہستی ہو چکی بس


ترے دیوانے تشنہ لب پھرے ہیں

مروج مئے پرستی ہو چکی بس


فضا آلود ہے گلشن سراپا

گلوں کی سرپرستی ہو چکی بس


ترے دعوے تو سب جھوٹے ہی نکلے

فنا شیطاں کی ہستی ہو چکی بس


صلہ سادہ دلی کا مل گیا ناں

یہ بیجا پیش دستی ہو چکی بس


بھلا کتنی گرے گی آدمیت

وفا مٹی سے سستی ہو چکی بس


چلو اب کوچ کا وقت آ گیا ہے

نگہبانیءِ ہستی ہو چکی بس


شمشاد شاؔد

No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...