غزل(1)
دل سے اگر ہو شائقِ فن تو غزل سنو
رگ رگ میں ہے جو ذوقِ سخن تو غزل سنو
گھلتی ہے اس کے سننے سے کانوں میں چاشنی
سونا لگے جو دل کا چمن تو غزل سنو
بزم سخن میں جا کے سکوں آئے گا تمہیں
اعصاب پر جو چھائے تھکن تو غزل سنو
وقتِ سحر کبھی جو توقع کے باوجود
پھوٹے نہ روشنی کی کرن تو غزل سنو
سنتے ہیں کارگر ہے یہ ہر درد کیلئے
ٹوٹے جو درد سے یہ بدن تو غزل سنو
غالؔب، جؔگر، مجاؔز، ظفؔر یا فراؔز کی
پاس آئے کوئی غنچہ دہن تو غزل سنو
کُھلتے ہیں ذہن و دل کے دریچے اسی سے شاؔد
لگ جائے فکر پر جو گہن تو غزل سنو
شمشاد شاؔد
غزل (2)
سایہ پڑتے ہی زمیں کا ماہ پر
چل پڑے سب دہریت کی راہ پر
بارہا اس کو کیا آگاہ، پر
دل کسی صورت نہ آیا راہ پر
یہ بھی دیکھا ہے ہماری نسل نے
کٹ گئے سر کتنے اک افواہ پر
ہیں جو اسرار زمیں سے نابلد
تبصرہ کرتے ہیں مہر و ماہ پر
ریزہ ریزہ ہو گیا رشتوں کا پل
جو ٹکا تھا صرف رسم و راہ پر
ہم سخندانوں کو مال و زر سے کیا
ہم تو بک جاتے ہیں صرف اک واہ پر
اک اشارہ تو ذرا کرتے کبھی
جان دے دیتے تمہاری چاہ پر
جیتنی بازی ہے جو شطرنج کی
رکھ نگاہیں ہر گھڑی تو شاہ پر
کیوں کسی کے آگے پھیلاؤں میں ہاتھ
میرا ایماں ہے مرے الله پر
کان کوئی کیوں نہیں دھرتا یہاں
شاؔد اس دل سے نکلتی آہ پر
شمشاد شاؔد
غزل (3)
فکر جب سے مری ہوئی غائب
لفظ معدوم شاعری غائب
تشنہ لب آبشار ہے خود ہی
کیا کریگا یہ تشنگی غائب
کچھ نہیں زندگی میں تیرے سوا
تو نہیں ہے تو زندگی غائب
تیرے جلوے نہیں نگاہوں میں
میری آنکھوں سے روشنی غائب
چاند غمگین ہو گیا جب سے
آسماں سے ہے چاندنی غائب
درد پوچھو نہ ان اندھیروں کا
جن اندھیروں سے تیرگی غائب
شاؔد خوف خدا رہا نہ ذرا
اب دلوں سے ہے بند گی غائب
شمشاد شاؔد
غزل (4)
چار و ناچار ہی ہم چشمِ زُحل میں آئے
ہائے کس واسطے رہنے وہ بغل میں آئے
جس کو کہنے میں عبث دل کو لگے چوٹ کوئی
بات ایسی نہ کوئی رد ِعمل میں آئے
تجھ پہ مرکوز رہے میری غزل کا مفہوم
نام تیرا نہ مگر میری غزل میں آئے
جتنی بیدردی سے مارا ہے محبّت نے مجھے
اس طرح بھی نہ کوئی دستِ اجل میں آئے
آج پھر ظل الہی نے دیا ہے فرمان
رقص کرتا نہ کوئی شیش محل میں آئے
جس سے عقبیٰ بھی رہے اور نہ فنا ہو دنیا
نکتہ ایسا دلِ نقاش ازل میں آئے
شاعرِ وقت یہ پوچھے ہے سرِ بزم کہ شاؔد
فاعلان آٹھ ہی کیوں بحر ِرمل میں آئے
شمشاد شاؔد
غزل (5)
دور نظروں سے جو ہو رہے ہیں ابھی، ایک دن وہ نظارے پلٹ آئیں گے
غم کا سیلاب جس دم اتر جائے گا سارے ٹوٹے کنارے پلٹ آئیں گے
چاہتوں نے کتر ڈالے ہیں ان کے پر، اب نہ جا پائیں گے یہ پرندے کہیں
پیار کے موتی جوں ہی لٹائے گا تو یہ محبّت کے مارے پلٹ آئیں گے
ہاجرہ سی اگر ہے تری جستجو، مہرباں تجھ پہ صحرا بھی ہو جائے گا
پیاس تیری بجھانے کو اے تشنہ لب، میٹھے پانی کے دھارے پلٹ آئیں گے
زندگانی کا موسم مرے دوستو ایک جیسا ہمیشہ تو رہتا نہیں
آئے ہیں بن بلائے جو رنج و الم، دن خوشی کے بھی پیارے پلٹ آئیں گے
اس کے رحم و کرم پر ہے مجھ کو یقیں میری دنیا بھی اک دن وہ چمکائے گا
نور بکھرے گا دل کی زمیں پر ضرور، آسماں پر ستارے پلٹ آئیں گے
جو نہ فرقہ پرستی، حسد، دشمنی اور تعصب کو جڑ سے مٹایا گیا
ڈر ہے جھلسانے کو آشتی کی فضا نفرتوں کے شرارے پلٹ آئیں گے
میں نہیں جانتا میں کہاں تھا مگر، شاؔد سرگوشیاں کر رہا تھا کوئی
جا رہے ہیں فلک سے جو سوئے زمیں، حشر کے دن وہ سارے پلٹ آئیں
شمشاد شاؔد
غزل (6)
فناۓ ہستیء انساں ہے اختتامِ حیات
تمام عمر کرے کون اہتمامِ حیات
وہ جن کی صبحیں ہیں رنگینیوں سے آلودہ
اذیتوں میں گزرتی ہے ان کی شامِ حیات
نہ کھیل جان سے اپنوں کی اور نہ غیروں کی
کہ اہلِ عقل پہ واجب ہے احترامِ حیات
وہی ہے خالق و مالک تمام عالم کا
اسی کے فضل پہ موقوف ہے نظام حیات
قنوط و یاس کی باتیں نہ ذکرِ خوف و ہراس
مری غزل کا ہر اک لفظ ہے پیامِ حیات
چراغِ زندگی بجھ بھی گیا تو کیا غم ہے
اندھیری قبرسے آگے ہے اہتمامِ حیات
میسر آتی کہاں لذتیں زمانے کی
جو شاؔد ہم کو میسر نہ ہوتا جام حیات
شمشاد شاؔد
غزل (7)
اک دل ہی ہے جو بارِ غمِ یار اٹھا سکے
ورنہ وہ کون ہے جو یہ جراَت دکھا سکے
بندوں کے رزق کا وہی کرتا ہے انتظام
وقعت نہیں کسی کی کسی کو کھلا سکے
اچھوں کے ساتھ ہر کوئی کر لیتا ہے نباہ
انساں تو ہے وہی جو بُروں سے نبھا سکے
اس بندۂ حقیر کی اتنی کہاں بساط
جُز تیرے اذن دستِ دعا بھی اٹھا سکے
دل تو ہے بس دماغ کے احکام کا غلام
ورنہ ہے کیا مجال کسی پر وہ آ سکے
جو لا سکیں کہیں سے تو پھر لے کے آئیے
وہ روشنی جو دل کا اندھیرا مٹا سکے
ظاہر تو موتیوں سا چمکدار کر لیا
باطن مگر نہ آج تلک جگمگا سکے
شمشاد شاؔد
غزل (8)
وہ رنگ اپنا بدل رہا تھا
انا کے سانچے میں ڈھل رہا تھا
وہ آگ تھی جو جلا رہی تھی
میں موم تھا سو پگھل رہا تھا
بدن سمیٹے حیا کا پیکر
زمین دل پر ٹہل رہا تھا
میں قیدِ تنہائی میں مقید
جہاں کا منظر بدل رہا تھا
ہوائیں ضد پر اڑی ہوئی تھیں
دیا ہواؤں میں جل رہا تھا
وہ بات سچ کہہ رہا تھا لیکن
عجیب لہجہ تھا کَھل رہا تھا
میں کیا بتاؤں خلاف میرے
وہ کس لئے زہر اگل رہا تھا
وہ پہلوئے غیر میں تھا اور میں
ہتھیلی اپنی مسل رہا تھا
حواس بے قابو ہو رہے تھے
میں شاؔد لیکن سنبھل رہا تھا
شمشاد شاؔد
غزل (9)
شرارہ بغض و نفرت کا دلوں میں جل رہا ہے
خدایا خیر انساں کو ہی انساں چھل رہا ہے
چلو مانا کہ میں ہوں جذبہءِ الفت سے خالی
تو اس کی دید کو دل کیوں مِرا بیکل رہا ہے
سکوں کی شام اتر آئی ہے، بیمارئ دل میں
افاقہ ہو رہا ہے درد آنکھیں مَل رہا ہے
سبھی اعضا چٹختے ہیں، رواں ہے آہ لب سے
بدن یہ درد کے سانچے میں جیسے ڈھل رہا ہے
طلب اب بھی ہے جلووں کی نگاہوں کو، اگرچہ
مسلسل آفتابِ زندگانی ڈھل رہا ہے
کہ نوعیت گنہ کی خود بخود ہو جاتی ہے کم
جب احساسِ ندامت قلب کو ہر پل رہا ہے
چھپا کر ریت میں سر یا پھر آنکھیں موند کر تم
یہ مت سمجھو جنابِ شاؔد خطرہ ٹل رہا ہے
شمشاد شاؔد
غزل (10)
جس دل کو بھی ٹٹولا وہ مصروفِ شر ملا
دورِ فتن میں ہر کوئی نامعتبر ملا
پنہاں سبھی کے سینوں میں انجانا ڈر ملا
دہشت زدہ ہمیں تو یہاں ہر بشر ملا
دو دن کی زندگی کو میسرر گلوں کی سیج
تاحشر رہنے کے لئے مٹی کا گھر ملا
واعظ مرا محاسبہ کرنے سے پیشتر
ہو روبروۓ آئینہ خود سے نظر ملا
دشواریوں کے بعد ہی ملتی ہیں راحتیں
اترا نہیں جو تہہ میں اسے کب گہر ملا
آگاہ دوسروں کی کمی سے ملے سبھی
خود سے مگر نہ کوئی ہمیں باخبر ملا
اب اور کس سے رکھوں امیدِ وفا یہاں
سایہ تلک نہ مجھ کو مرا معتبر ملا
لوگوں کو شاؔد عشق میں آسودگی ملی
مجھ کم نصیب کو ہی مگر دردِ سر ملا
شمشاد شاؔد
غزل(11)
مجھے کیا غرض کسی سے کوئی نیک ہو کہ بد ہو
جو دلیل پیش ہو وہ بحوالہ مستند ہو
مری دوستی کے لائق وہی شخص ہوگا جس کے
نہ فریب و مکر دل میں، نہ ہی نفس میں حسد ہو
کریں کیا جو عقلِ خود سر کی ہو بس یہی تمنا
کہ خلافِ عقل دل کی ہر اپیل مسترد ہو
جو سواۓ اپنے رب کے کسی اور سے نہ مانگے
مرے ہاتھ سے ہمیشہ ایسے لوگوں کی مدد ہو
کوئی پوچھے تو بتاؤں مری آخری تمنا
تری قبر کی بغل میں مری جاں مری لحد ہو
نہ شکایتیں کسی سے نہ کسی کی واہ واہی
نہ خوشی سے خوش کلامی، نہ غموں سے رد و کد ہو
جو نصیب میں ہے لکھا تو اسی پہ اکتفا کر
تری خواہشوں کے دریا میں کبھی نہ جزر و مد ہو
جو زباں کو تم نے اپنی نہ سنبھالا تو ہے ممکن
مرے صبر اور تحمل کی اے شاؔد ختم حد ہو
شمشاد شاؔد
غزل(12)
آنکھوں میں ہو پیار تو پیارا ہر نظّارہ لگتا ہے
ورنہ ذائقہ میٹھے پانی کا بھی کھارا لگتا ہے
میرے ردِ عمل پر برہم کیوں ہوتا ہے ہر کوئی
آگ لگی ہو سینے میں تو گُل بھی شرارہ لگتا ہے
تم عریانی دیکھ کے ہو محظوظ مگر مجھ جیسوں کو
پیراہن انسانیت کا پارہ پارہ لگتا ہے
کام رکا ہے ہاتھ رکے ہیں اور رکی ہے دنیا ہی
ساکت اپنے آپ میں جیسے وقت کا دھارا لگتا ہے
ان کو یہ لگتا ہے اپنے دیش سے پیار نہیں ہم کو
دیش کا کیا ہے ہم کو کل سنسار ہمارا لگتا ہے
دل کرتا ہے تن سے تمہارے بن کر سانپ لپٹ جاؤں
چندن کی خوشبو سے مہکا روپ تمہارا لگتا ہے
ایک اسی کو رحم نہ آیا میرے حال پہ ورنہ شاؔد
دیکھ کے مجھ کو سب کہتے ہیں عشق کا مارا لگتا ہے
شمشاد شاؔد
غزل(13)
آج اچانک جانے کیسے ڈوب گیا
عمر کا سورج وقت سے پہلے ڈوب گیا
ایک ترا ہی نام زباں پر رہتا ہے
یہ دل جب سے عشق میں تیرے ڈوب گیا
پیاس بجھانے آیا تھا وہ ساحل پر
پیاس بجھائی، پیاس بجھا کے ڈوب گیا
ہلکی سی اک چوٹ لگی احساس کو اور
دل کا سفینہ چلتے چلتے ڈوب گیا
دیکھ کے بیٹوں کی نازیبا حرکت باپ
بحرِ الم میں شرم کے مارے ڈوب گیا
ایسا لگتا ہے آہوں کا اک طوفان
دریا کے ساحل پر آ کے ڈوب گیا
وہ کہ جسے ہم لوگ بچانے آئے تھے
خود ڈوبا ہم کو بھی لیکے ڈوب گیا
میں جو غرق ہوا تو لوگ کہیں گے شاؔد
زندہ دل انسان تھا ہائے ڈوب گیا
شمشاد شاؔد
غزل(14)
کسی کے نام و رتبہ اور نہ خد و خال سے مطلب
کراماً کاتبیں کو خلق کے اعمال سے مطلب
یہ بس سانسوں کی لَے پر نام اس کا جپتے رہتے ہیں
فقیروں کو نہیں ہوتا میاں سر تال سے مطلب
میسر آئیں ان کو زندگی کی ساری سوغاتیں
جنہیں ہے اس جہاں میں شوکت و اقبال سے مطلب
اگر اس دور میں اٹھنا ہے تو اٹھ جانے دے مولیٰ
کسی مومن کو کیوں ہو فتنۂ دجال سے مطلب
وگرنہ کون رنگینی کے پیچھے بھاگے دنیا کی
ہے جب تک زندگی تب تک ہے اس جنجال سے مطلب
ہم اپنی دھن میں ہر دم محو رہتے ہیں ہمیں اے دل
غرض خوشیوں کی سازش سے نہ غم کی چال سے مطلب
سگانِ دہر کا ہے کام یونہی بھونکتے رہنا
مگر الله والوں کو ہے اپنی چال سے مطلب
وہ جب اے شاؔد امانت غیر کی ہو ہی گیا ہے تو
نہ رکھ تو بھی اب اسکے رییشمی رومال سے مطلب
شمشاد شاؔد
غزل(15)
پیشانیٔ حالات پہ بل دیکھ رہا ہوں
تالاب میں مرجھائے کنول دیکھ رہا ہوں
اخلاص کا فقدان نظر آتا ہے ہر سو
احساس جہاں والوں کا شل دیکھ رہا ہوں
حد درجہ تعصب کا نتیجہ ہے کہ افسوس
پنہاں یہاں ہر آنکھ میں چھل دیکھ رہا ہوں
کس شوق سے آیا تھا لئے وصل کی خواہش
ویران امیدوں کا محل دیکھ رہا ہوں
سہتے ہوئے دیکھا ہے سدا ظلم زمیں کو
کرتے ہوئے اب رد عمل دیکھ رہا ہوں
یہ پیڑ جو آنگن میں مرے سایہ فگن ہے
اجداد کے اعمال کا پھل دیکھ رہا ہوں
دن رات کی محنت کا نتیجہ ہے کہ جاری
دنیا میں ترقی کا عمل دیکھ رہا ہوں
اے شاؔد کوئی ماہ جبیں ہے کہ پری وش
یا میں کوئی غالب کی غزل دیکھ رہا ہوں
شمشاد شاؔد
غزل(16)
جو بد چلن ہیں وہ کہہ رہے ہیں جفا پرست و شریر ہم کو
وفا شعاری سکھائیں گے اب یہ بے حس و بے ضمیر ہم کو
جو یوں تو ناآشنائے حق ہیں، شعور و ادراک سے ہیں غافل
وہ بد عقیدہ سمجھ رہے ہیں جہالتوں کے اسیر ہم کو
اب ایسے لوگوں کا کیا کریں جو ہیں حسنِ اخلاق سے بھی خالی
نہیں ہے رشتوں کا پاس خود کو سمجھ رہے ہیں حقیر ہم کو
زباں پہ ہر وقت رب کا کلمہ ہے جاری اپنے تو پھر یقیناً
لحد میں کر پائیں گے نہ خائف سوالِ منکر نکیر ہم کو
وجہ سبھی پوچھتے ہیں لیکن تمہی بتاؤ کہ کیا کہیں جب
خیالِ ہمدم نے ہی کیا ہے اے دوستو گوشہ گیر ہم کو
زبان و تہذیب سے نہیں جن کا واسطہ وہ بھی دیکھئے تو
اے شاؔد پیہم چبھو رہے ہیں زباں درازی کے تیر ہم کو
شمشاد شاؔد
غزل(17)
جنوں میں گزری کبھی انتشار میں گزری
تمام عمر ترے انتظار میں گزری
مسرتوں کی تگ و دو میں دن تمام ہوا
سیاہ رات غموں کے شُمار میں گزری
کِیاتھا وعدہ مِرے خواب وہ سجائیں گے
شب ِفِراق اسی اعتبار میں گزری
فراغتوں میں سکوں کے لئے ترستا رہا
مسافرت بھی مری آر پار میں گزری
یہ میری ماں کی دعاؤں کا تھا اثر کہ حیات
خزاں کے ہوتے ہوئے بھی بہار میں گزری
ذرا نہ چین ملا شاؔد روحِ بِسمل کو
حیات میری دُکھوں کے حصار میں گزری
شمشاد شاؔد
غزل(18)
دنیا کی لذّتوں سے لَو مت لگانا پاگل
ڈھے جاۓ گا جہاں کا یہ شامیانہ پاگل
سچائیاں تمہاری سب ہو گئیں اجاگر
کیوں ورغلا رہے ہو اب میں رہا نہ پاگل
تیری ادائیں مجھ کو کھینچے ہیں اپنی جانب
تجھ کو قسم ہے کہہ کر مجھ کو بلا نہ پاگل
عقبیٰ بگاڑتے ہیں یہ کفریہ تماشے
ہر شعبدے کے آگے یوں سر جھکا نہ پاگل
باتوں پہ ہم تمہاری کیسے یقین کر لیں
وہ شخص اب تلک تو ہم کو لگا نہ پاگل
کیا کیا نہ مسخرانہ حرکات تم نے کی ہیں
پھر بھی وہاں کسی نے تم کو کہا نہ پاگل
ہر لمحہ انکی باتیں، ہر پل انہی کا چرچہ
عشقِ نبی میں میرا سارا گھرانہ پاگل
جلووں میں اسکے گم ہے ہر عضو شاؔد میرا
دنیا سمجھ رہی ہے مجھ کو دِوانہ پاگل
شمشاد شاؔد
غزل(19)
رواداری، اخوت کا سماں گم ہو گیا ہے
جہاں سے پیار کا نام و نشاں گم ہو گیا ہے
ابھی تک تو یہیں تھا عقل کی انگلی کو تھامے
دوبارہ پھر نہ جانے دل کہاں گم ہو گیا ہے
سکوں کی بارشیں اب کون برسائے گا مجھ پر
مرے دل کی زمیں کا آسماں گم ہو گیا ہے
بچاتا تھا غموں کی دھوپ سے جو عاشقوں کو
مکانِ عشق کا وہ سائباں گم ہو گیا ہے
محبت کا ہر اک رشتے میں تھا فقدان لیکن
قیامت ہے کہ ممتا کا نشاں گم ہو گیا ہے
بڑھوں آگے کہ پیچھے موڑ دوں کشتی وفا کی
یہاں جو تھا وہ خطرے کا نشاں گم ہو گیا ہے
لگا رہتا تھا ہر پل اسکے پھٹ پڑنے کا خطرہ
چلو اچھا ہوا آتش فشاں گم ہو گیا ہے
رپٹ تھانے میں گمشدگی کی لکھوائی کسی نے
بہو کے آتے ہی بیٹا جواں گم ہو گیا ہے
اثر کیا خاک یہ دل پر کریگا سامعیں کے
بیاں سے شاؔد جب زور بیاں گم ہو گیا ہے
شمشاد شاؔد
غزل(20)
دل میں ترے ہے کون، تجھے کس کی آرزو
کیسا یہ شوقِ دید ہے کیسی ہے جستجو
بدلا نظامِ عشق نہ بدلیں روایتیں
دیوانہ وار ہر کوئی پھرتا ہے کو بہ کو
رشوت کا بول بالا ہے دنیا میں ہر طرف
کیسے ملے نجات سبھی جب ہیں حِیلہ جُو
ہم کو قدم قدم پہ ملٖیں ٹھوکریں مگر
تبدیلئِ نظام کی پھر بھی ہے آرزُو
کس سمت یہ نگاہ کروں سوجھتا نہیں
اک چاند آسماں میں ہے اک میرے روبرو
تیری ہی جستجو لئے پھرتا ہوں دیدہ نم
آنکھوں میں قید کر لوں جو دکھ جائے مجھ کو تو
ہر روح ہے اسیر غموں کے حصار میں
پھیلی ہوئی دِلوں میں کثافت ہے چارسو
اسکی گلی سے لوٹ کے آیا ہے جب سے شاؔد
رہنے لگا ہے خود سے یہ دل محو گفتگو
شمشاد شاؔد
غزل(21)
اس کو ہماری فکرسے گر انحراف ہے
یعنی جدیدیت کے وہ بالکل خلاف ہے
فطرت کا اب کسی کی لگے بھی قیاس کیا
چہرے پہ خود نمائی کا سب کے غلاف ہے
اب خیر و عافیت کا یقیں ہو تو کس طرح
مجرم ہر ایک شہر کا وعدہ معاف ہے
رقصاں ہے کائنات اسی کے سرور میں
یہ کرّہِ زمین بھی محوِ طواف ہے
امن و اماں کی پیروی کرتے ہیں اہل دین
اسلام خود بھی ظلم و ستم کے خلاف ہے
محفل میں سب کے سامنے دیوانہ کہہ کے شاؔد
اس نے مرے جنوں کا کیا اعتراف ہے
شمشاد شاؔد
22) غزل
نالۂ رنج و الم، آہ و فغاں کی آواز
مستقل گونجتی ہے دردِ نہاں کی آواز
اب کے اتریں گی بہاریں کچھ اس انداز کے ساتھ
دب کے رہ جائے گی گلشن میں خزاں کی آواز
ہم کو خطرات سے کرتی ہے یہ بروقت آگاہ
کوئی سنتا ہی نہیں وادئ جاں کی آواز
ایک تو سیل رواں اس پہ ہواؤں کا وہ شور
بے صدا ہو گئی خطرے کے نشاں کی آواز
ایسے آلات تو ہر ایک کو حاصل ہیں یہاں
ایک پل میں وہاں پہنچا دیں یہاں کی آواز
دفن ہو جاتا مصیبت کے گڑھے میں میں بھی
جو خبردار نہ کرتی مری ماں کی آواز
ایسا لگتا ہے کوئی کانوں میں رس گھولتا ہے
دل کی مسجد سے جب آتی ہے اذاں کی آواز
شاؔد محسوس کرو روح کی گہرائی سے
میری آنکھوں سے رواں دل کے بیاں کی آواز
شمشاد شاؔد
23) غزل
سازش غم و آلام کی ناکام ہو کچھ تو
وہ کام کرو جس سے خوشی عام ہو کچھ تو
نفرت کی بہت ہو چکی تشہیر جہاں میں
اب رسمِ محبت بھی یہاں عام ہو کچھ تو
الزام لگاؤ کہ سیاہی ملو منہ پر
کچھ ایسا کرو جس سے مرا نام ہو کچھ تو
الفت کی نظر بھی تو ذرا ڈال دیا کر
اس دل کو ترے قرب سے آرام ہو کچھ تو
زندانِ محبت میں اسے قید تو کر لوں
اس دشمنِ جاں پر مگر الزام ہو کچھ تو
محظوظ کروں تم کو مری فکر سے لیکن
وجدان میں اشعار کا الہام ہو کچھ تو
اک موڑ اسے دے کے یہیں چھوڑ دوں لیکن
اے شاؔد اس افسانے کا انجام ہو کچھ تو
شمشاد شاؔد
24) غزل
نا حق الزام لگائے تو کرے کیا کوئی
دل جو اپنا ہی دکھائے تو کرے کیا کوئی
کام ترکیب نہ آئے تو کرے کیا کوئی
زندگی رنگ دکھائے تو کرے کیا کوئی
لطف دیدار نگاہیں تو اٹھاتی ہیں مگر
تشنگی دل کی نہ جائے تو کرے کیا کوئی
عقل بروقت خبردار کرے خطروں سے
پھر بھی دل باز نہ آئے تو کرے کیا کوئی
آرزو مند نہیں کون یہاں خوشیوں کا
غم مراسم جو بڑھائے تو کرے کیا کوئی
بھیگنے کا بہت ارمان ہو برساتوں میں
اور برسات نہ آئے تو کرے کیا کوئی
ظرف روکے ہے مگر شاؔد ہوا کی شہ پر
ایک ہونے لگیں سائے تو کرے کیا کوئی
شمشاد شاؔد
25) غزل
سیاست میں سبھی چہرے کہاں بے داغ ہوتے ہیں
کچھ ایسے بھی تو ہیں جو نفرتوں کے بیج بوتے ہیں
بڑے کمظرف ہیں پی کر شرابِ اقتدار اب تو
ہمارے دور کے حاکم صریحاً ہوش کھوتے ہیں
کوئی نا آشنا ہم کو کہاں تکلیف دیتا ہے
جو دل کے پاس ہوتے ہیں وہی نشتر چُبھوتے ہیں
یہ بے گھر تو جہاں چاہیں وہیں پا لیتے ہیں تسکین
مکاں جن کے نہیں ہوتے بڑے بے خوف سوتے ہیں
انہیں پاسِ انا محفل میں رونے بھی نہیں دیتا
جو اپنی ذات میں تنہا ہیں وہ چُھپ چُھپ کے روتے ہیں
حقیقت ہے یہی آنکھیں کبھی اندھی نہیں ہوتیں
منوّر دل نہ ہوں جن کے وہی بینائی کھوتے ہیں
یہ عالم ہے کہ میرے دیدہ و دل ہر گھڑی جاناں
تمہاری یاد میں رو رو کے اب دامن بھگوتے ہیں
خدارا یوں نہ اس دل پر چلاؤ تیر نظروں کے
کسی کی جان لینے کے بھی کچھ آداب ہوتے ہیں
توقع شاؔد کیسی نیم کے پیڑوں سے آموں کی
وہی تو کاٹتے ہیں ہم جو اِن ہاتھوں سے بوتے ہیں
شمشاد شاؔد
26) غزل
یوں ہی نہیں اس دیدۂ سفاک کی جانب
مائل میں ہوا ہوں بتِ بیباک کی جانب
جو پیاس کے صحرا میں بھٹکتی ہیں مسلسل
آنکھیں وہ لگی رہتی ہیں افلاک کی جانب
اس عشق نے کیا حال بنا ڈالا ہے میرا
دیکھو تو مرے دامنِ صد چاک کی جانب
سج دھج کے جو میں قریہءِ نادار میں پہنچا
ہر چشمِ طلب تھی مری پوشاک کی جانب
کیا چھوڑ دیں اس خوف سے موجوں کی سواری
گرداب تو آتے ہی ہیں پیراک کی جانب
کہنے کو تو کہتے ہیں کہ جائیں گے جہاں سے
جاتے ہیں مگر لوگ اسی خاک کی جانب
رہتے تھے ادب سے کھڑے جبریل زمیں پر
جب جب بھی وہ آئے شہ لولاکؐ کی جانب
اغیار تو اے شاؔد ہیں دشمن مری جاں کے
اپنوں کی نظر ہے مری املاک کی جانب
شمشاد شاؔد
27) غزل
سرکشی کے غار میں یہ کون لے آیا مجھے
کون ہے وہ راہِ حق سے جس نے بھٹکایا مجھے
ریزہ ریزہ اپنے دل کو خود وہی کرتا رہا
موردِ الزام لیکن سب نے ٹھہرایا مجھے
میں کہ بس جلووں کی بارش کا تمنائی مگر
چند بوندوں کے لئے بھی تونے ترسایا مجھے
جسم و جاں کانپے ہیں اب بھی سوکھے پتوں کی طرح
ظلمتوں نے رات ننگے پاؤں دوڑایا مجھے
کس جنم کا جانے مجھ سے لے رہا ہے انتقام
کیوں ڈراتا ہے اکیلے میں مرا سایہ مجھے
جان تک میں نے لٹا دی اک تصور کے لئے
دیکھئے شوق ِجنوں لیکر کہاں آیا مجھے
اس کی یادوں کا تحفظ میں نے ہر لمحہ کیا
جس کی اک اک یاد نےہر لحظہ تڑپایا مجھے
ایک دل ہی تھا مرا وہ بھی رہن رکھا ہے شاؔد
جانے کب لوٹائے گا وہ میرا سرمایہ مجھے
شمشاد شاؔد
28) غزل
مال و دولت سے نہ زرّیں جبّہ و دستار سے
عزتیں ملتی ہیں انساں کو فقط کردار سے
ویسے تو ہر دن نئے ہوتے رہے ہم پر ستم
حوصلہ ٹوٹا نہ اپنا حادثوں کی مار سے
ہر کسی سے ہم بڑے اخلاص سے ملتے رہے
یہ جہاں لیکن نہ پیش آیا کبھی بھی پیار سے
خامشی بہتر ہے بے جا گفتگو سے ناقدو
ظرف کا معیار ہوتا ہے عیاں گفتار سے
سورۂ اقراء جو دہرایا رسول الله نے
منبعء انوار پھوٹا ترعگی کے غار سے
قبل اس کے بند ہو جائے عمل کا راستہ
عاقبت اپنی سنوارو توبہ استغفار سے
جان دیں شوقِ طلب میں سرمد و منصور نے
شاؔد کب عشاق ڈرتے ہیں صلیب و دار سے
شمشاد شاؔد
29) غزل
درونِ ذات خموشی سے جل رہی تھی آگ
اسی لئے تو ان آنکھوں سے پھوٹتی تھی آگ
ہم ان کے آتشی تیور کو کیا سمجھ پاتے
ہماری سرد مزاجی کو اجنبی تھی آگ
دوبارہ اسکے بھڑکنے پہ سب کو حیرت ہے
سبھی نے غور سے دیکھا تھا بجھ چکی تھی آگ
یہ بات پوچھوں گا تقدیر لکھنے والے سے
مرے ہی بخت میں کس واسطے لکھی تھی آگ
دھواں دھواں جو ہوا دل تو یہ کہا سب نے
یقین ہو گیا ہم کو کہ عاشقی تھی آگ
وہ جس کے زیر اثر ہے زمانہ آج تلک
اس انقلاب کی صحرا سے ہی اٹھی تھی آگ
کسی بھی لمحہ چمن خاک ہو بھی سکتا تھا
جہاں جہاں سے مںھ گزرا وہاں دبی تھی آگ
یہ معجزہ ہے براہیمؑ پر بفضل خدا
بس ایک آن میں گلزار ہو گئی تھی آگ
ہوۓ ہے تجربے ایسے تمام عمر کہ شاؔد
ہر ایک عضو یہ کہتا ہے زندگی تھی آگ
شمشاد شاؔد
30) غزل
قلب کا احتجاج ہوتا ہے
اور کیا اختلاج ہوتا ہے
سب نتیجہ ہے اپنی کرنی کا
یہ جو دنیا میں آج ہوتا ہے
یہ بھی رنگت بدلتی ہے اپنی
لاش کا بھی مزاج ہوتا ہے
محو ہوتے ہیں عشق میں جو لوگ
ان سے کب کام کاج ہوتا ہے
بچ کے چلتا ہے ہر کوئی اس سے
شخص جو بد مزاج ہوتا ہے
مسلکِ عشق میں تو کثرت سے
ظلم سہنا رواج ہوتا ہے
عشق کیا ہے تمھیں یہ بتلا دوں
روگ یہ لا علاج ہوتا ہے
میرے محبوب پیرہن میں ترے
رنگوں کا امتزاج ہوتا ہے
کوئی شعبہ ہو آجکل تو شاؔد
نذر و رشوت کا راج ہوتا ہے
شمشاد شاؔد
31) غزل
دیکھا جو تو نے پیار سے چہرہ ہمارا کھل گیا
پیاسے کو جیسے دشت میں پانی کا جھرنا مل گیا
کس کا بھروسہ کیجئے ہر کوئی خود غرض یہاں
جس دل پہ ناز تھا وہی سینے سے مستقل گیا
الزامِ نا توجہی ہم پر تو مت لگائیے
بیخود ہیں اپنے آپ سے جب سے ہمارا دل گیا
کیا سرکشی ہے دیکھئے عرضِ طلب کے باوجود
سایہ مرا جدھر گیا مغموم و مضمحل گیا
میں خاک ہو گیا تو کیا کچھ دیر کے لئے سہی
خوف و ہراس سے مرے دشمن کا دل تو ہل گیا
مرضی سے اپنی زندگی سب نے گزاری پھر بھی کیوں
رخصت کے وقت ہر کوئی دنیا سے منفعل گیا
شکوہ رہا نہ اب مرے دل میں کوئی گلہ ہے شاؔد
آنکھوں سے اس نے چھو لیا ہر ایک زخم سل گیا
شمشاد شاؔد
32) غزل
بے سکوں موجِ نفس ہے، آنسوؤں کا شور ہے
قلزمِ غم میں ہے کشتی، حوصلہ کمزور ہے
یوں نہ تم بحر حوادث میں اتارو کشتیاں
آج برہم ہیں ہوائیں، آندھیوں کا زور ہے
ہم تو سینہ تان کر دیں گے سوالوں کے جواب
وہ چراتا ہے نگاہیں جس کے دل میں چور ہے
عدلیہ میں ہر طرف پھیلی ہیں بدعنوانیاں
کیا ملے انصاف جب منصف ہی رشوت خور ہے
آ، ذرا کہتے ہیں مل کر کوئی برجستہ غزل
فیصلہ ہو جائے گا کس کے قلم میں زور ہے
خیر مقدم ہنس کے کر نادان اپنی موت کا
بعد مرنے کے دوامی زندگی کی بھور ہے
شاؔد اسی کے حکم کی تعمیل ہم کرتے نہیں
جس کے ہاتھوں میں ہماری زندگی کی ڈور ہے
شمشاد شاؔد
33) غزل
جانے کیوں روزگارِ دنیا سے
ہم کو وحشت ہے کارِ دنیا سے
خواہشوں نے جکڑ رکھا ہے ہمیں
کیسے نکلیں حصار دنیا سے
اک نہ اک دن نڈھال ہو کے تمہیں
باہر آنا ہے غارِ دنیا سے
ہم مسافر ہیں آخرش ہم بھی
جائیں گے رہگزارِ دنیا سے
اب یہی قبر ہے ترا مسکن
باہر آ جا خمارِ دنیا سے
ہم تو دنیا پرست ہیں ہم کیا
دور رہتے مدارِ دنیا سے
روزِ اول سے گلشنِ دل میں
رونقیں ہیں بہارِ دنیا سے
روح کو بھی تو غسل ہے درکار
اٹ گئی ہے غبارِ دنیا سے
شاؔد دانستہ کچھ دریدہ دہن
ہیں الگ کاروبارِ دنیا سے
شمشاد شاؔد
34) غزل
یکلخت نکلتی ہے، ناگاہ نکلتی ہے
اب تو مرے سینے سے بس آہ نکلتی ہے
حسرت بھری آنکھوں سے سب دیکھتے رہتے ہیں
وہ سیر کو جب میرے ہمراہ نکلتی ہے
تم شام سے کچھ پہلے اس موڑ پہ آ جانا
جس موڑ سے صحرا کو اک راہ نکلتی ہے
الفاظ کے جادوگر ساحؔر تری غزلوں کے
ہر شعر پہ برجستہ بس واہ نکلتی ہے
اخبار و رسائل بھی ہیں جھوٹ کے سوداگر
ہر ایک خبر ان کی افواہ نکلتی ہے
جو لوگ گناہوں کے رستے پہ بھٹکتے ہیں
اولاد اے شاؔد ان کی گمراہ نکلتی ہے
شمشاد شاؔد
35) غزل
تمہی سے ہے زندگی میں رونق جو تم نہ ہوں گے تو کیا کریں گے
تمہاری یادوں کا لے کے کاسہ رہِ وفا میں پھرا کریں گے
ولی صفت لوگ زخم کھا کر بھی بانٹتے ہیں جہاں میں خوشیاں
بھلائی جن کی سرشت میں ہو وہ ہر کسی کا بھلا کریں گے
تو اپنا ہر نقش دل کے کمرے سے جاتے جاتے مٹا کے جانا
فراق میں وصل کے مناظر تو داغ دل کا ہرا کریں گے
ہمارے دل کو ہر ایک لمحہ بس اک یہی فکر کھا رہی ہے
جو وعدہ کر کے بھی وہ نہ آیا تو اسکے وعدے کا کیا کریں گے
قفس سے آزاد کر کے ان کو کھلی فضا میں جو چھوڑ آؤ
تو عمر بھر بے زباں پرندے تمہارے حق میں دعا کریں گے
گماں تھا ہم کو سرور و مستی میسر آئیں گے عاشقی میں
نہ جانتے تھے کہ عمر بھر یوں شرابِ غم کا نشہ کریں گے
روش ہو دناھ کی چاہے کچھ بھی مگر کات ہے یہ عزم ہم نے
کہ اب ہمشہ اے شاؔد اپنے اصول پر ہی چلا کریں گے
شمشاد شاؔد
36) غزل
ہر روح پریشان ہے گھبرائی ہوئی ہے
کیسی یہ مصیبت کی گھڑی آئی ہوئی ہے
چھینی ہے بھلا کس نے ہنسی ان کے لبوں کی
ہر ایک کلی باغ کی مرجھائی ہوئی ہے
سلنا تو بہت دور ادھیڑا گیا ہر بار
جب جب بھی مرے زخموں کی ترپائی ہوئی ہی
کھیتوں سے گزرتی ہوئی پگڈنڈی کی صورت
ریکھا مری تقدیر کی بل کھائی ہوئی ہے
دنیا کے خزانوں کی تمنا نہیں ہم کو
دنیا تو ہماری میاں ٹھکرائی ہوئی ہے
کیسے نہ رہے گرم یہاں جھوٹ کا بازار
ناپید جو دنیا ہی سے سچائی ہوئی ہے
وہ آگ تو بس وصل کی بارش سے بجھے گی
جو آگ ترے ہجر نے بھڑکائی ہوئی ہے
تجھ پر میں دل و جان لٹاتا ہوں، یہ افواہ
ایسا تو نہیں تیری ہی پھیلائی ہوئی ہے
امید کے تے ہوئے افلاک سے معدوم
اور شب کی ساہہی بھی تو گہرائی ہوئی ہے
چھائی ہے گھٹا شاؔد مرے دل کے فلک پر
یا زلف کسی شوخ نے لہرائی ہوئی ہے
شمشاد شاؔد
37) غزل
انانیت کو کبھی ہم زباں کیا ہی نہیں
خودی پہ دوستو ہم نے گماں کیا ہی نہیں
سفر حیات کا ہم نے گراں کیا ہی نہیں
فریبیوں کو کبھی ہم عناں کیا ہی نہیں
کسی پہ کیسے عیاں ہوتی دل کی کیفیت
کہ راز دل تو کسی سے بیاں کیا ہی نہیں
اندھیروں میں رہے پر مانگے کے اجالوں سے
گھر اپنا ہم نے کبھی ضوفشاں کیا ہی نہیں
ادھر کی بات ادھر اور ادھر کی بات ادھر
یہ مشغلہ کبھی ہم نے میاں کیا ہی نہیں
درون ذات میں جانے یہ پل گئیں کیسے
ان آرزوؤں کو ہم نے جواں کیا ہی نہیں
ملیں گی اشک کی سوغات اسلئے ہم نے
اے شاد عشق میں جی کا زیاں کیا ہی نہیں
شمشاد شاؔد
38) غزل
کوئی رت ہو کوئی موسم سوچتا رہتا ہوں میں
آنکھ کیوں رہتی ہے پرنم سوچتا رہتا ہوں میں
اشک، وحشت، اضطراری، درد و غم، رنج و ملال
کس طرح دنیا سے ہوں کم سوچتا رہتا ہوں میں
چومتی ہے برگ و بر کو دھوپ تو جانے کہاں
جاکے چھپ جاتی ہے شبنم سوچتا رہتا ہوں میں
عشق جس دن سے ہوا ہے تجھ سے اے جانِ غزل
تیرے بارے میں ہی پیہم سوچتا رہتا ہوں میں
جب کوئی مضمون ڈھلنا چاہتا ہے شعر میں
سر کو ہلکا سا کئے خم سوچتا رہتا ہوں میں
یہ مسلسل فکر میرے ذہن و دل کی ہے غذا
سوتا ہے جب سارا عالم سوچتا رہتا ہوں میں
شاؔد اُسی کو سوچتے رہنے سے آتا ہے سکوں
اسلئے اس کو ہی ہر دم سوچتا رہتا ہوں میں
شمشاد شاؔد
39 )غزل
دلِ بیتاب محوِ آرزو ہے کیا کیا جائے
اسے تو بس وفا کی جستجو ہے کیا کیا جائے
بہت سمجھا چکے پر باز آتا ہی نہیں ناداں
رہِ الفت پہ چلنا دل کی خو ہے کیا کیا جائے
اسی کے نام کا چرچا ہے ہر بزمِ سخن میں اب
وہ اک شاعر نما جوخوش گلو ہے کیا کیا جاۓ
یہ مانا عزم و ہمت لاکھ پختہ ہیں مرے لیکن
ہر اک پُرزہ بدن کا حیلہ جو ہے کیا کیا جائے
رفوگر نے یہ کہہ کر دل مرا لوٹا دیا مجھ کو
ترے دل میں بہت کارِ رفو ہے، کیا کیا جائے
توجہ تیری باتوں پر کوئی دیگا بھی کیسے جب
ہر انساں خود سے محوِ گفتگو ہے، کیا کیا جائے
محبت سے ہر اک سے پیش آنا چاہیے جبکہ
ہوا نفرت کی پھیلی چارسو ہے، کیا کیا جائے
برائی سے ہی دیگا وہ تری اچھائی کا بدلہ
عدو ہے وہ عداوت اس کی خو ہے، کیا کیا جائے
پسند آتی بھی کیسے شاؔد میری باتیں لوگوں کو
مرے لہجے میں سچائی کی بو ہے، کیا کیا جائے
شمشاد شاؔد
40) غزل
لگنا اداسیوں کا دل آرا عجیب تھا
کل ساری رات حال ہمارا عجیب تھا
آنکھوں کو بند رکھا تو محظوظ ہو سکے
ورنہ تماش گہ کا نظارہ عجیب تھا
دولت خدا نے بخشی تھی لیکن بخیل شخص
تنگی میں کر رہا تھا گزارا عجیب تھا
تم لڑ رہے تھے حق کی لڑائی وہاں مگر
لڑنے کا وہ طریقہ تمہارا عجیب تھا
کچھ کچھ عجیب ہوتا تو حیرت کی کیا تھی بات
لیکن وہاں تو سارا کا سارا عجیب تھا
غرقاب دل کی کشتی کنارے پہ ہو گئی
کشتی عجب تھی یا وہ کنارہ عجیب تھا
تم جیت ہی چکے تھے مگر عین وقت پر
اس طرح ہار جانا تمہارا عجیب تھا
کتنوں کو شاؔد اس میں منافع ملا مگر
بس اک تمہی کو ملنا خسارہ عجیب تھا
شمشاد شاؔد
41) غزل
جو کر سکو تو کرو وفاؤں کا باب شامل
کتابِ نفرت میں پیار کا انتساب شامل
خلوص، مہر و وفا کا فقدان ہے جہاں میں
تم اپنی خو میں کرو انہیں بے حساب شامل
کرشمہ یہ بھی دکھائے اک دن نصیب اپنا
تمہاری نیندوں میں ہوں ہمارے بھی خواب شامل
کوئی تو اس میں ہے مصلحت جو کیا ہے رب نے
سمندروں کے مزاج میں اضطراب شامل
جب آدمی کی شناخت ہے اس کی شان و شوکت
تو قابلیت میں کیوں نہ ہو آب و تاب شامل
کہ بزم رقص و طرب میں رخ پر نقاب ڈالے
ہوا ہے دیکھو ہر ایک عزت مآب شامل
جواب دینے میں ہچکچاتے ہیں لوگ اکثر
ہو شاؔد اگر خود سوال میں ہی جواب شامل
شمشاد شاؔد
42) غزل
چاہے جتنے زخم دے جتنا بھی تڑپا لے مجھے
لذّتیں دیتے ہیں اب یہ پاؤں کے چھالے مجھے
تجھ سے گر دیکھی نہیں جاتیں مری بیتابیاں
تو خدا سے مانگ لے، قسمت میں لکھوا لے مجھے
میں قفس لے کر ہی اڑجاؤنگا اک دن دیکھنا
کیا بھلا روکیں گے یہ زنجیر اور تالے مجھے
رنج و غم سہہ سہہ کے عاجز آ چکا ہے دل مرا
اس سے اچّھا ہے کہ اب وہ مار ہی ڈالے مجھے
تیرگیءِ قبر میں ہیں میری شان و شوکتیں
دیدۂ عبرت سے دیکھیں ، دیکھنے والے مجھے
میں، کہ ان کی زندگی پر جیسے کوئی بوجھ ہوں
آج یوں تکتے ہیں میری گود کے پالے مجھے
رات مجنوں نے کہا آ کر یہ مجھ سے خواب میں
مار ہی ڈالیں گے میری جان کے لالے مجھے
شاؔد اُس جیسا نہ ہوگا میرا کوئی نُکتہ چیں
جو چبھوتا ہے سدا تنقید کے بھالے مجھے
شمشاد شاد
43) غزل
ہم نے تو کی تھی خواہشِ دیدارزیر لب
کیوں مسکرا کے چل دیئے سرکار زیرِ لب
دونوں جہاں ہمارے سنور جایئنگے حضور
بس اک ذرا سا پیار کا اظہار زیرِ لب
اقرار پر ہے آپ کے قائم مرا وجود
بارِ خدا نہ کیجئے انکار زیر لب
یوں بے حجاب سیر کو جایا نہ کیجئے
باتیں ہزار کرتے ہیں اغیار زیرِ لب
ویسے تو شعر گوئی سے میری خفا ہیں وہ
پر گنگناتے ہیں مرے اشعار زیرِ لب
کتنا حسیں ہے آپ کا اندازِ گفتگو
پڑھتے ہو جیسے صبح کا اخبار زیرِ لب
جراَت اگر ہے شاؔد تو کر احتجاجِ ظلم
ظاہرمیں کر نہ پاۓ تو کر یار زیر لب
شمشاد شاؔد
44) غزل
کیوں تو مایوسیوں کے غار میں ہے
نام تیرا بھی اشتہار میں ہے
جب تقاضاۓ دل کیا میں نے
اس نے بولا کہ تو قطار میں ہے
جان دے سکتا ہوں تری خاطر
بس یہی میرے اختیار میں ہے
مجھ کو لگتا ہے میرے دل جیسا
ایک موتی جو تیرے ہار میں ہے
وصل میں لذّتیں کہاں اتنی
لطف جتنا اس انتظار میں ہے
ہم پہ ٹوٹی ہے اک قیامت سی
آپ کا درد کس شمار میں ہے
شمشاد شاؔد
45) غزل
میں آرزؤں سے ہنس کے جو ہمکلام ہوا
تو اسپ میری تمنا کا بے لگام ہوا
نہ دشت ہجر میں قصہ مرا تمام ہوا
نہ میری آس کا سورج کنارِ شام ہوا
تری رضا کے مطابق ہر ایک کام ہوا
ہوں مطمئن کہ نہ میں نفس کا غلام ہوا
زمیں پہ ہم کو اتارا گیا تھا جینے کو
مگر یہاں پہ تو مرنے کا انتظام ہوا
معاشرے سے جو بنیادی قدریں ختم ہوئیں
دلوں میں بیجا امنگوں کا ازدحام ہوا
مخالفت کو نہ آیا کوئی امیروں کی
ہمارے کچے گھروں کا جب انہدام ہوا
کی عیب جوئی زمانے کی اِس نے دنیا میں
پر اپنے آپ سے انساں نہ ہمکلام ہوا
چھڑا ہے معرکہ جب بھی دل و دماغ کے بیچ
دلِ غریب کا ہر بار قتل عام ہوا
جہاں سے شاؔد یہ کہہ کر اٹھوں گا میں اک دن
چلو کہ زیست کا یہ درد سر تمام ہوا
شمشاد شاؔد
46) غزل
بے عمل، جھوٹا، فریبی ہے، بداطوار بھی ہے
آج کے دور کا انساں تو اداکار بھی ہے
عقل حیراں ہے کہ جنت کا طلبگار بھی ہے
دل یہ دنیا کی محبّت میں گرفتار بھی ہے
چاہنے والوں کا میلہ ہے تمہارے اطراف
ان میں ہمدم یا کوئی مونس و غمخوار بھی ہے
اپنی قسمت پہ میں نازاں ہوں کہ دلبر میرا
خوبصورت ہے، سجیلا ہے، وفادار بھی ہے
تونےالزام لگا تو دیا غداری کا
یہ بتا کیا ترے دعوے کا کچھ آدھار بھی ہے
کس کو روداد سناؤں کہ سبھی پوچھتے ہیں
داستاں کیا تری سننے میں پُر اسرار بھی ہے
سہل اتنی بھی نہیں شاؔد محبت کی ڈگر
پھول اس پر ہیں کہیں تو کہیں پرخار بھی ہے
شمشاد شاؔد
47) غزل
بے چین رکھیں دل کو اطوار طبیعت کے
کچھ ٹھیک نہیں لگتے آثار طبیعت کے
تفریح کے کتنے ہی سامان میسر تھے
ہم ہی ہیں خود اندر سے بیزار طبیعت کے
حجت کا کوئی موقع جانے نہ دیا ہم نے
ہم لوگ ازل سے ہیں بیدار طبیعت کے
کہنا نہ کسی سے بھی باتیں یہاں اندر کی
باشندے یہاں کے ہیں اخبار طبیعت کے
دے دیتے تھے جان اپنی پر سر نہ جھکاتے تھے
اب لوگ کہاں ویسے خوددار طبیعت کے
بدحال ہیں ہم کیونکہ رہبرجو ہمارے ہیں
اوباش مزاجوں کے، مکّار طبیعت کے
ہمدردیاں لوگوں کی ملتی ہیں انہیں کو شاؔد
صورت سے جو لگتے ہیں بیمار طبیعت کے
شمشاد شاؔد
48) غزل
دیکھنے میں گل ہیں لیکن چبھ رہے ہیں خار سے
ہار یہ آئے ہیں شاید گلشنِ اغیار سے
چارہ گر بھی ہو گئے بیزار مجھ بیمار سے
اب شفا ممکن ہے تو بس آپ کے دیدار سے
بات بھی کوئی یہاں کرتا نہیں ہے پیار سے
لوگ تیرے شہر کے لگتے ہیں کچھ بیزار سے
خود غرض ہیں مرد و زن ہر شخص ہے وعدہ شکن
ہم کسی اپنے سے ملتے ہیں نہ اب اغیار سے
طاق پر اپنی انا رکھ کرگئے تھے ہم وہاں
وہ اتر کر ہی نہ آیا فخر کے مینار سے
میری خواہش تھی میں اس پر وار دوں یہ زندگی
وہ مگر چسپاں تھا جیسے نقرئی دیوار سے
کس لئے تجھ کو کروں میں خیر خواہوں میں شمار
آ رہی ہے بو عداوت کی تری گفتار سے
بال بھی بانکا نہ کر پاتیں تمہارا آندھیاں
تم اگر کشتی کو کھیتے عزم کی پتوار سے
آپ پر لگتی نہ میرے قتل کی تہمت کبھی
قتل کرنا تھا تو کرتے نینوں کی تلوار سے
شیرِ حق، خیبر شکن، مشکل کشا، مولیٰ علیؓ
خوف کھاتے تھے منافق حیدرِ کرار ؓسے
کتنی جلدی شام کی دہلیز پر میں آ گیا
دیکھتے ہی دیکھتے وقت اُڑ گیا رفتار سے
لذتیں پنہاں اسی میں ہیں زمانے بھر کی شاؔد
آ تجھے میں پیار سکھلا دوں ذرا وِستار سے
شمشاد شاؔد
49) غزل
اخلاص، پیار، عشق و محبت کا ایک لفظ
رس گھولتا ہے کانوں میں چاہت کا ایک لفظ
رکھ دیگا لا کے تجھ کوقطارِ رقیب میں
نکلا اگر زباں سے کدورت کا ایک لفظ
مارے خوشی کے خشک زمیں جھومنے لگی
چمکا تھا آسمان پہ رحمت کا ایک لفظ
الله کے رسول کا فرمان ہے یہی
بخشش میں آڑے آئے گا غیبت کا ایک لفظ
آنکھوں کے ان دریچوں سے جھلکے ہے صاف صاف
ہر پل کوئی نہ کوئی شکایت کا ایک لفظ
در در کی ٹھوکریں ہی لکھی ہیں نصیب میں
کیوں میرے بخت میں نہیں راحت کا ایک لفظ
چرچا اِسی کا ہونے لگا ہر زبان پر
اسلام سے جڑا جو شہادت کا ایک لفظ
اس کے حضور جب بھی اٹھاؤں دعا کو ہاتھ
لب پر ہو میرے صرف ندامت کا ایک لفظ
آزردگی کی گود میں کس تمکنت سے شاؔد
نظریں چرا رہا ہے عنایت کا ایک لفظ
شمشاد شاؔد
50) غزل
صرف کہنے کو نظر سے دور تھا
قلب کے زنداں میں وہ محصور تھا
روک لیتے بڑھ کے میرا راستہ
کب پہنچ سے میں تمہاری دور تھا
کون یوں صحرا میں بھٹکے گا، کہ میں
باعثِ وارفتگی مجبور تھا
خوش تھا رخصت کر کے بیٹی کو بہت
دل مگر اک باپ کا رنجور تھا
تازہ دم چہرے سے لگتا تھا وہ شاؔد
جسم حالانکہ تھکن سے چور تھا
شمشاد شاؔد
51) غزل
زمانہ تو اسی کا ہے جو تیرا قرب پا جاۓ
عنایت جس پہ ہو تیری وہ اس دنیا پہ چھا جائے
رخِ روشن تمہارا دیکھ کے شرمائے سورج بھی
پری چہرہ ہو تم ایسی جو دیکھے دیکھتا جائے
تِری زلفیں ہیں یا کالی گھٹاؤں کی قطاریں ہیں
بکھر جایئں جو چہرے پر قیامت دل پہ آ جائے
سلونا روپ یہ تیرا ہے ڈھلتی شام کا سایا
کہ جس میں ڈوب کے سورج تپش اپنی بجھا جاۓ
تمہاری جھیل سی آنکھیں ہیں سحر انگیز کچھ ایسی
جو ان میں جھانک لے وہ بس انھیں میں ڈوبتا جائے
سُریلی یہ صدا تیری پرندوں کو رجھاتی ہے
کہ جیسے تیری بولی کا نشہ خلقت پہ چھا جائے
وہ تیرے ہاتھ کا کنگن چِڑھاتا ہے میرے دل کو
یہ ناداں چاہتا ہے خود تیری بانہوں میں آ جائے
جو تیرے جسم کی خوشبو ہواؤں پر مسلّط ہے
ہواؤں کے پروں سے اڑ کے سینے میں سما جائے
بڑا مشکل سفر اب ہو گیا ہے زندگانی کا
مزہ جینے کا آ جاۓجوتوبھی ساتھ آجائے
سراپا گلستاں تجھ میں ہے نکہت شوخ پھولوں کی
میری دنیا سنور جاۓجوتومجھ میں سماجاۓ
نشیلی چال ہے تیری یا موجیں ہیں سمندر کی
سفینے بس اُدھر جایئں جدھر لے کر ہوا جاۓ
تراشا جسم یہ تیرا ہے فنکاری مصوّر کی
سنوارا ہے تجھے کس نے دیوانہ سوچتا جائے
سراپا نور ہے پیکر تیرا، اے جانِ جاناناں
چمک اٹھے فلک سارا ضیاتجھ سے جو پا جاۓ
تصوّر شاؔد ہے یہ سب، مگر اس لا شعوری میں
کہیں تو ہے کوئی ایسا جو مجھ کو کھینچتا جاۓ
شمشاد شاؔد
52) غزل
دُکھوں کو ایڑ لگاتے ہیں غم سے کھیلتے ہیں
وہ جیتتے ہیں جو لوح و قلم سے کھیلتے ہیں
نہ جانے کس لئے اہلِ کرم سے کھیلتے ہیں
زمانے والے دلِ محترم سے کھیلتے ہیں
یہی رواج ہے شہرِ ستم کا صدیوں سے
جو شاد ہیں وہ اسیرانِ غم سے کھیلتے ہیں
قسم ہے ان کی قسم کا یقین مت کرنا
منافقین خدا کی قسم سے کھیلتے ہیں
مخالفین میں یہ بات مشتہر کر دو
ہے مات ان کی یقینی جو ہم سے کھیلتے ہیں
کہ اپنے اپنے عقیدوں کو طاق پر رکھ کر
جنابِ شیخ و برہمن دھرم سے کھیلتے ہیں
اے شاؔد رنج و الم کا نہیں ہے خوف ہمیں
ہم ابتدا ہی سے رنج و الم سے کھیلتے ہیں
شمشاد شاؔد
53) غزل
جب مریضِ غم خوشی کی آرزو کرنے لگے
پھر کوئی تدبیر کیونکر چارہ جو کرنے لگے
یوں سمجھئے اسکے دل میں پل رہا ہے انتشار
کوئی اپنے آپ سے جب گفتگو کرنے لگے
بات تو تب ہے کہ یہ دنیا ہمارے پیار کا
تذکرہ اے جانِ جاناں چار سو کرنے لگے
تشنگی اس دل کی بڑھ جاتی ہے پہلے سے سوا
یار جب آرائشِ جام و سبو کرنے لگے
تب تو یادوں کے گلستاں سے نکل جانا ہے ٹھیک
جب طبیعت کو پریشاں رنگ و بو کرنے لگے
تم ہی بتلاؤ بچائیں کیسے اس کی آبرو
کوئی خود کو ہی اگر بے آبرو کرنے لگے
سوچئے نازاں ہیں اپنی چاک دامانی پہ جو
وہ کسی کا دامن دل کیوں رفو کرنے لگے
حد سے بڑھ جائیں گے جب ظلم و ستم تو ظالمو
عین ممکن ہے کہ دنیا ہاؤ ہو کرنے لگے
پھر تو اس کے فضل سے ہوگی قبول اپنی نماز
دل اگر اشکِ ندامت سے وضو کرنے لگے
اپنے اندر خوبیاں پیدا کریں ایسی کہ شاؔد
آپ کی تعریف کھل کر خود عدو کرنے لگے
شمشاد شاؔد
No comments:
Post a Comment