یوم پیدائش 04 مارچ 1966
خودی کو بیچ دینا بے ضمیری کو نہاں رکھنا
بلا کا وصف ہے اس میں تقدس سا عیاں رکھنا
ہمیں پہلے سے ہے اندازهء سود و زیاں رکھنا
نظر میں ہر گھڑی دار و رسن کے امتحاں رکھنا
توانائی کی حدت میں نہ ہو تبدیل یہ اک دن
زیادہ سے زیادہ جسم پہ بار گراں رکھنا
گھرے ہیں نرغہ ء اعدا میں جب سے آگیا خود کو
فساد و فتنه و قبر و قضا میں خونچکاں رکھنا
اسیر گیسوئے حرص و حوس جب معتبر ٹھہرا
چراغ انس و جاں ممکن نہیں ہے ذوفشاں رکھنا
درون شہر جاں میں شور و شر برپا ہے جب پیہم
عبث ہے قصہء شام و سحر نوک زباں رکھنا
ہمارا حال کچھ ایسا ہے جیسے موج دریا میں
کسی کاغذ کی کشتی پر کشادہ بادباں رکھنا
ذرا سن لے خدا ہی کچھ ہماری کون سنتا ہے
دعائے نارسائی میں فغان بے زباں رکھنا
زمانے سے اگر آگے نکلنا ہے تمہیں واقف
برابر ذہن و دل میں عہد کی تیاریاں رکھنا
واقف انصاری
No comments:
Post a Comment