نہیں کرتے جو لوگ اوروں کی عزت
اٹھانی پڑےگی انھیں خودبھی ذلت
شمار انکا بھی کجیے ظالموں میں
کہ کرتے ہیں جو ظالموں کی حمایت
وہ اک قصۂِ غم ہی پڑھتے رہے ہم
نہ بدلے ہے راوی نہ بدلے روایت
نگاہیں ملانا ملاکر چرانا
یہ معصومیت ہے یا کوئی شرارت
تم اک بار بولی لگاکر تو دیکھو
بکے گی صحافت عدالت حکومت
خدا دے گا بے شک تمہیں اس کا بدلا
کرو کام کوئی رکھو صاف نیت
یوں بیٹھے بٹھائے نہیں ملتا کچھ بھی
کہا سچ کسی نے ہے حرکت میں برکت
مزاج اپنا ہے دوستو سیدھا سادا
کہ کرتے نہیں ہم کسی سے سیاست
بڑا ہے وہ سب سے بڑی شان اس کی
بیاں کرسکے نہ کوئی اس کی عظمت
کسی کو بھی اپنے سے کم ترسمجھنا
حماقت ہے ہرگز نہ کرنا حماقت
حقیقت میں ہیں صاحبِ زر وہی لوگ
جنھیں مل گئی ہے ہدایت کی دولت
کٹے زیست حکمِ خدا کے مطابق
نہ ہو کام کوئی خلافِ شریعت
میں شاعر ہوں میرا فریضہ ہے ماجؔد
بیاں کرنا ہر دم حقیقت صداقت
عبدالماجد عادل آبادی
No comments:
Post a Comment