یوم پیدائش 01 مارچ 1914
لے کے دل کہتے ہو الفت کیا ہے
حسن والو یہ شرارت کیا ہے
اک اچٹتی سی تغافل کی نگاہ
حیلہ عرض محبت کیا ہے
خود ہی نادم ہوں وفا پر اپنی
اس تبسم کی ضرورت کیا ہے
مجھ کو بہتان ہوس بھی منظور
کون سمجھے گا حقیقت کیا ہے
نکہت و نور کے سانسوں کا کماں
ورنہ تو کیا مری صورت کیا ہے
قامت یار کی بگڑی ہوئی شکل
فتنۂ روز قیامت کیا ہے
کس کی ہمت کہ تجھے ساتھ لگائے
تو بجز موج لطافت کیا ہے
ربط محسوس کی الجھن کے سوا
آپ کا جذبۂ نفرت کیا ہے
اشک غم بوند ہے پانی کی مگر
یہ بھی معلوم ہے قیمت کیا ہے
دامن ناز کی جھاڑی ہوئی گرد
اور انساں کی حقیقت کیا ہے
میں کہ اک گوہر آلودۂ خاک
کچھ نہ سمجھا مری قیمت کیا ہے
طالب داد سخن کیوں ہو نثارؔ
آپ کے شعر میں جدت کیا ہے
نثار اٹاوی
No comments:
Post a Comment