Urdu Deccan

Monday, March 1, 2021

نثار اٹاوی

 یوم پیدائش 01 مارچ 1914


لے کے دل کہتے ہو الفت کیا ہے

حسن والو یہ شرارت کیا ہے


اک اچٹتی سی تغافل کی نگاہ

حیلہ عرض محبت کیا ہے


خود ہی نادم ہوں وفا پر اپنی

اس تبسم کی ضرورت کیا ہے


مجھ کو بہتان‌‌ ہوس بھی منظور

کون سمجھے گا حقیقت کیا ہے


نکہت و نور کے سانسوں کا کماں

ورنہ تو کیا مری صورت کیا ہے


قامت یار کی بگڑی ہوئی شکل

فتنۂ روز قیامت کیا ہے


کس کی ہمت کہ تجھے ساتھ لگائے

تو بجز موج لطافت کیا ہے


ربط محسوس کی الجھن کے سوا

آپ کا جذبۂ نفرت کیا ہے


اشک غم بوند ہے پانی کی مگر

یہ بھی معلوم ہے قیمت کیا ہے


دامن ناز کی جھاڑی ہوئی گرد

اور انساں کی حقیقت کیا ہے


میں کہ اک گوہر‌ آلودۂ خاک

کچھ نہ سمجھا مری قیمت کیا ہے


طالب داد سخن کیوں ہو نثارؔ

آپ کے شعر میں جدت کیا ہے


نثار اٹاوی 


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...