یوم پیدائش 31 مارچ 1993
اس جیسا یہاں کوئی بھی فن کار نہیں ہے
قاتل ہے مگر ہاتھ میں تلوار نہیں ہے
اٹھوں گا مگر صبح تو ہونے دے مؤذن
سونے کے لئے نیند بھی درکار نہیں ہے
یوں ہے کہ فقط دیکھ کے ہوتی ہے تسلی
معمولی کوئی نقش یا دیوار نہیں ہے
درد دل مجروح کوئی سمجھے تو کیسے
اس شہر میں مجھ سا کوئی بیمار نہیں ہے
ہاتھوں میں لئے ہاتھ گزرتے رہے ہم دو
پھر جا کے ہوا علم مجھے پیار نہیں ہے
تصویر تری آنکھ ملاتی رہی دن بھر
پر ہاتھ ملانے کو یہ تیار نہیں ہے
احمد صدیقی
No comments:
Post a Comment