یوم پیدائش 26 مارچ
وہ جو اترا تھا میری روح میں خوشبو بن کر
اب میری آنکھ سے ٹپکا ہے وہ آنسو بن کر
کرجیاں خواب ہیں تعبیر ہے ریزہ ریزہ
رقصِ تقدیر میں ٹوٹا ھوں میں گھنگرو بن کر
یاد کرتا ہوں تو اطراف مہک اٹھتے ہیں
جیسے وہ آپ ہی آجاتا ہے خوشبو بن کر
گھیرے رکھتے ہیں مجھے یوں تیری یاوں کے حصار
بام و دیوار بھی ملتے ہیں مجھے تو بن کر
ہائے اُس دوش پہ وہ رات سے کالی زلفیں
جن پہ خورشید بھی منڈلائے ہے جگنو بن کر
جنسِ بازار سمجھتے ہیں مجھے لوگ قمر
جو بھی ملتا ہے وہ ملتا ہے ترازو بن کر
زوار قمر عابدی
No comments:
Post a Comment