Urdu Deccan

Tuesday, April 27, 2021

ندیم اعجاز

 کس سے رونا روئے کوئی اپنے ٹوٹے خوابوں کا

کب تک زندہ رہ لے کوئی بوجھ اٹھائے وعدوں کا


کل کی فکر مسلط سب پر کل جانے کیا ہو جائے

سر پر بوجھ لیے پھرتے ہو کیوں کل کے اندازوں کا


سہنے والے لوگ بہت ہیں کہنے والا کوئی نہیں

دیکھو کیسے کال پڑا ہے بستی میں آوازوں کا


فیاضی کیا خوب دکھائی ہے صیاد نے کیا کہنے

کاٹے بال و پر پنچھی کے حکم دیا پروازوں کا


مست نظر ساقی کی ہم پر بادل برکھا سب کچھ ہے

پھر ٹوٹے گا آج بھرم لو اپنے سبھی ارادوں کا


شامیں سرد ہوئیں ہیں پھر سے درد پرانے جاگیں گے

لوٹ آیا ہے پھر سے موسم بھولی بسری یادوں کا


دنیا داری کیسے گزری یہ بھی تو پوچھے گا وہ ندیم

حشر میں خالی کب پوچھے گا روزے اور نمازوں کا


ندیم اعجاز


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...