یوم پیدائش 20 اپریل 1977
کہ جیسے ایک چنگاری جلائے راکھ ہونے تک
نہیں جھکتی یوں ہی گردن ہماری خاک ہونے تک
ابھی ہوں اس قدر سادہ محبت کر نہیں سکتا
تو میری سادگی پہ مر مرے چالاک ہونے تک
نہ جانے رو پڑا وہ کیوں لہو میرا جو ٹپکا تو
ستم جس نے کیے مجھ پر جگر کے چاک ہونے تک
بہا کر لے گئے آنسو تجھے تیرے ٹھکانے سے
بسا تھا تو ان آنکھوں میں مگر نمناک ہونے تک
جو مجھ کو کاٹنے میں ہر گھڑی مصروف تھے ان کو
دیا ہے سائباں میں نے خس و خاشاک ہونے تک
ابھی روشن تو ہیں لیکن اُجالے ہم نہ لے پائے
یہ شمعیں بجھ چکی ہوں گی ہمیں ادراک ہونے تک
دعاٶں میں اثر ہو تو پہنچتی ہیں وہاں فوراً
نہیں لگتا انہیں اک پل پسِ افلاک ہونے تک
تجھے پہنائی ہے بیٹی تو اِس کی لاج بھی رکھنا
یہ میرے سر کی پگڑی تھی تری پوشاک ہونے تک
جاویدجدون
No comments:
Post a Comment