Urdu Deccan

Saturday, April 24, 2021

اختر ہوشیارپوری

 منزلوں کے فاصلے دیوار و در میں رہ گئے

کیا سفر تھا میرے سارے خواب گھر میں رہ گئے


اب کوئی تصویر بھی اپنی جگہ قائم نہیں

اب ہوا کے رنگ ہی میری نظر میں رہ گئے


جتنے منظر تھے مرے ہمراہ گھر تک آئے ہیں

اور پس منظر سواد رہ گزر میں رہ گئے


اپنے قدموں کے نشاں بھی بند کمروں میں رہے

طاقچوں پر بھی دیئے خالی نگر میں رہ گئے


کر گئی ہے نام سے غافل ہمیں اپنی شناخت

صرف آوازوں کے سائے ہی خبر میں رہ گئے


ناخداؤں نے پلٹ کر جانے کیوں دیکھا نہیں

کشتیوں کے تو کئی تختے بھنور میں رہ گئے


کیسی کیسی آہٹیں الفاظ کا پیکر بنیں

کیسے کیسے عکس میری چشم تر میں رہ گئے


ہاتھ کی ساری لکیریں پاؤں کے تلووں میں تھیں

اور میرے ہم سفر گرد سفر میں رہ گئے


کیا ہجوم رنگ اخترؔ کیا فروغ بوئے گل

موسموں کے ذائقے بوڑھے شجر میں رہ گئے


اختر ہوشیارپوری


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...