Urdu Deccan

Saturday, April 24, 2021

اشفاق احمد صائم

 منزلوں کی اور جاتے سب اشارے مر گئے

آنکھ کی دہلیز پر جب خواب سارے مر گئے


لمحہ بھر کو چاند مٹھی میں چھپا کے رکھ لیا

لمحہ بھر میں دیکھ تو کتنے ستارے مر گئے


اُس نے جب اک پھول کے رخسار پر بوسہ دیا

تم نے دیکھا ہی نہیں کتنے نظارے مرگئے


پانیوں کی چاہ میں اُس کے قدم اُٹھے تو پھر

ہو گیا دریا سمندر اور کنارے مر گئے


اُس نے جب سر کو مرے کاندھے پہ آ کے رکھ دیا

پھر شجر دیوار و در اور سب سہارے مر گئے 


وقتِ رخصت حوصلہ جانے کہاں گم ہو گیا 

سوچ پاگل ہو گئی ، الفاظ سارے مر گئے 


اِس طرح صدقے اتارے اس نے اپنی ذات کے

اُس نے اپنے سر سے جتنے لوگ وارے مر گئے


اشفاق احمد صائم


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...