یوم پیدائش 02 اپریل 1958
ہوا کا حکم بھی اب کے نظر میں رکھا جائے
کسی بھی رخ پہ دریچہ نہ گھر میں رکھا جائے
یہ کائنات ابھی تک مرے طواف میں ہے
عجب نہیں اسے یوں ہی سفر میں رکھا جائے
میں سنگ سادہ ہوں لیکن مری یہ حسرت ہے
مکان دوست کے دیوار و در میں رکھا جائے
یہ جل بجھے گا اسی زعم آگہی کے سبب
دیے کو اور نہ باب خبر میں رکھا جائے
نشہ اڑان کا ایسے اترنے والا نہیں
کچھ اور وزن مرے بال و پر میں رکھا جائے
کوئی کہیں نہ کہیں اک کمی سی ہے مجھ میں
مجھے دوبارہ گل کوزہ گر میں رکھا جائے
وہ آئینہ ہے تو حیرت کسی جمال کی ہو
جو سنگ ہے تو کہیں رہ گزر میں رکھا جائے
وہ چاہتا ہے کہ طارقؔ نعیم تجھ کو بھی
تمام عمر اسی کے اثر میں رکھا جائے
طارق نعیم
No comments:
Post a Comment