( در صنعت ذو قافیتین )
ظلمتوں کو مٹا دیا جائے
خود کو سورج بنا لیا جائے
راستے کے سبھی چراغوں کو
خون دل سے جلا دیا جائے
جو دیے تیرگی کے حامی ہیں
ان کو فوراً بجھا دیا جائے
شاخ سے پھول اب نہ توڑیں گے
آج یہ فیصلہ کیا جائے
فخر ہے جس کو خوب روئی پر
اس کو اک آئنہ دیا جائے
توڑ کر اب انا کی دیواریں
اؤ بے ساختہ ملا جائے
غم جو ہیں ان کے نام سے منسوب
ان کو دل سے لگا لیا جائے
پھولوں کی خوشبوئیں پکڑنے کا
آئیے تجربہ کیا جائے
جس کی شاخیں کبھی نہ مرجھائیں
پیڑ ایسا لگا دیا جائے
ایک آفاقی شعر کہنے کو
کون سا قافیہ لیا جائے
زندگی مجھ سے ہے خفا صابر !
ایسی صورت میں ک
یا کیا جائے
صابر جوہری بھدوہوی
No comments:
Post a Comment