تمہاری یاد میں ڈوبے کہاں کہاں سے گئے
ہم اپنے آپ سے بچھڑے کہ سب جہاں سے گئے
نئی زمین کی خواہش میں ہم تو نکلے تھے
زمین کیسی یہاں ہم تو آسماں سے گئے
زمانے بھر کو سمیٹا تھا اپنے دامن میں
پلٹ کے دیکھا تو خود اپنے ہی مکاں سے گئے
یہ کھوٹے سکے ہیں الفاظ اس صدی کی سنو
یہ ان کا دور نہیں یہ تو اس جہاں سے گئے
سحر فضول کی خواہش ہے زندگی جینا
مرے تو لوگ نہ جانیں گے کس جہاں سے گئے
صادقہ نواب سحر
No comments:
Post a Comment