یوم پیدائش 08 اپریل 1943
وہ ایک شخص کہ جس سے شکایتیں تھیں بہت
وہی عزیز اسی سے محبتیں تھیں بہت
وہ جب ملا تو دلوں میں کوئی طلب ہی نہ تھی
بچھڑ گیا تو ہماری ضرورتیں تھیں بہت
ہر ایک موڑ پہ ہم ٹوٹتے بکھرتے رہے
ہماری روح میں پنہاں قیامتیں تھیں بہت
پہنچ گئے سر منزل تری تمنا میں
اگرچہ راہ کٹھن تھی صعوبتیں تھیں بہت
وہ یوں ملا ہے کہ جیسے کبھی ملا ہی نہ تھا
ہماری ذات پہ جس کی عنایتیں تھیں بہت
ہمیں خود اپنے ہی یاروں نے کر دیا رسوا
کہ بات کچھ بھی نہ تھی اور وضاحتیں تھیں بہت
ہمارے بعد ہوا اس گلی میں سناٹا
ہمارے دم سے ہی ناصرؔ حکایتیں تھیں بہت
ناصر زیدی
No comments:
Post a Comment