چھوڑئیے قصۂ ماضی کو نہ اب یاد کر یں
آئیے پھر دلِ ویراں کو ہم آباد کر میں
قدر آزادئ گلشن کی نہ جانی ہم نے
ہم کو کب حق ہے کہ ہم شکوۂ صیاد کریں
پوچھتے ہیں سبھی تاراجیء گلشن کا سبب
ہم تو خاموش ہیں کچھ آپ ہی ارشاد کریں
غم کے ماروں کو ہے اک موجِ تبسم کافی
آپ چاہیں تو علاجِ دل ناشاد کریں
زندگی اپنی کچھ اس طرح گزار اے زاہد
بھولنے والے بھی تاعمر تجھے یاد کریں
زاہد فتح پوری

No comments:
Post a Comment