یوم پیدائش 23 اپریل 1933
جس نے بنایا ہر آئینہ میں ہی تھا
اور پھر اس میں اپنا تماشہ میں ہی تھا
میرے قتل کا جشن منایا دنیا نے
پھر دنیا نے دیکھا زندہ میں ہی تھا
محل سرا کے سب چہروں کو جانتا ہوں
جس سے گئے تھے دل تک راستہ میں ہی تھا
دیکھ لیا زندانوں کی دیواروں نے
ان سے قد میں بلند و بالا میں ہی تھا
میں ہی نہیں تو کون سے لوگ اور کیسے لوگ
کون سی دنیا صاحب دنیا میں ہی تھا
ملکوں ملکوں پھر کر خالی ہاتھ میاں
لوٹنے والا وہ شہزادہ میں ہی تھا
دنیا تو نے خالی ہاتھ مجھے جانا
ظالم تیرا سب سرمایہ میں ہی تھا
میرا سراغ لگانے والے جانتے ہیں
جب تک تھا میں اپنا حوالہ میں ہی تھا
رضی اختر شوق
No comments:
Post a Comment