یوم پیدائش 23 اپریل 1940
اس کی آنکھوں میں اتر جانے کو جی چاہتا ہے
شام ہوتی ہے تو گھر جانے کو جی چاہتا ہے
کسی کم ظرف کو با ظرف اگر کہنا پڑے
ایسے جینے سے تو مر جانے کو جی چاہتا ہے
ایک اک بات میں سچائی ہے اس کی لیکن
اپنے وعدوں سے مکر جانے کو جی چاہتا ہے
قرض ٹوٹے ہوئے خوابوں کا ادا ہو جائے
ذات میں اپنی بکھر جانے کو جی چاہتا ہے
اپنی پلکوں پہ سجائے ہوئے یادوں کے دیے
اس کی نیندوں سے گزر جانے کو جی چاہتا ہے
ایک اجڑے ہوئے ویران کھنڈر میں آذرؔ
نا مناسب ہے مگر جانے کو جی چاہتا ہے
کفیل آزر امروہوی
No comments:
Post a Comment