سجا کر بزم میں لائی گئی ہوں
یہاں ضد کرکے بلوائی گئی ہوں
ادھر کچھ بھی نہ بولوں گی یہ طے ہے
بطور_ خاص سمجھائی گئی ہوں
کسی در پر بھی چاہت سے گئی جب
اسی در سے میں ٹھکرائی گئی ہوں
خطا جب بھی ہوئی ہے کوئی مجھ سے
پکڑ کر کان سے لائی گئی ہوں
محبت کے تپے صحرا کی جانب
میں ننگے پاوں، چلوائی گئی ہوں
محبت کا ہوں، اک پر کیف نغمہ
میں ہر محفل میں گل! گائی گئی ہوں
کوکی گل
No comments:
Post a Comment