یوم پیدائش 10 اپریل 1978
صد شکر زمانے سے جدا بیچ رہے ہیں
ہم دشت میں بارش کی دعا بیچ رہے ہیں
کیوں حرمتِ قرآن کی قسموں کو ا ٹھا کر
کچھ لوگ عدالت میں خدا بیچ رہے ہیں
رہبر ہیں مرے ملک میں فنکار بلا کے
وعدوں کے غباروں میں ہوا بیچ رہے ہیں
صدیوں سے چلی آتی کہانی کے ردھم میں
درویش صفت لوگ نیا بیچ رہے ہیں
اس ملکِ خدا داد میں اسلام کے داعی
پردے میں ثقافت کے حیا بیچ رہے ہیں
کھلتی ہوئی کلیوں کو یہ بازار میں لا کر
نوخیز جوانی کا مزہ بیچ رہے ہیں
اندھے توحقیقت میں وہی لوگ ہیں ناصر
اندھوں کے نگر میں جو دیا بیچ رہے ہیں
سید ناصر مستجاب
No comments:
Post a Comment