زخم پر زخم کھانے کی عادت نہیں
اب مجھے دل لگانے کی عادت نہیں
میں تمہارا یقیں اب کروں کِس طرح
خود کو پاگل بنانے کی عادت نہیں
جو بُھلا دے اُسے بُھول جاتا ہوں میں
اپنے دل کو جلانے کی عادت نہیں
گر کِسی سے بھلائی نہ کر پاٶں تو
مجھ کو دل بھی دُکھانے کی عادت نہیں
رات دن سوچتا ہوں فقط میں تمہیں
مجھ کو سارے زمانے کی عادت نہیں
میں تو لِکھتا ہوں غزلیں تمہارے لئے
ہر کِسی کو سنانے کی عادت نہیں
ساتھ میرا مصیبت میں جو چھوڑ دے
اُس کو پھر آزمانے کی عادت نہیں
ہے وفا کی توقع اُسی سے مجھے
جِس کو وعدہ نِبھانے کی عادت نہیں
تھی طبیعت گلابوں سی پر اب مجھے
بِن ترے مسکرانے کی عادت نہیں
بُھول جاتا ہوں ذُلفی زمانے کو میں
ایک تجھ کو بُھلانے کی عادت نہیں
ذوالفقار علی ذُلفی
No comments:
Post a Comment