یوم پیدائش 18 مئی 1922
دھوپ کے ساتھ گیا ساتھ نبھانے والا
اب کہاں آئے گا وہ لوٹ کے آنے والا
ریت پر چھوڑ گیا نقش ہزاروں اپنے
کسی پاگل کی طرح نقش مٹانے والا
سبز شاخیں کبھی ایسے تو نہیں چیختی ہیں
کون آیا ہے پرندوں کو ڈرانے والا
عارض شام کی سرخی نے کیا فاش اسے
پردۂ ابر میں تھا آگ لگانے والا
سفر شب کا تقاضا ہے مرے ساتھ رہو
دشت پر ہول ہے طوفان ہے آنے والا
مجھ کو در پردہ سناتا رہا قصہ اپنا
اگلے وقتوں کی حکایات سنانے والا
شبنمی گھاس گھنے پھول لرزتی کرنیں
کون آیا ہے خزانوں کو لٹانے والا
اب تو آرام کریں سوچتی آنکھیں میری
رات کا آخری تارا بھی ہے جانے والا
وزیر آغا
No comments:
Post a Comment