یوم پیدائش 19مئی 1922
رنگ یہ ہے اب ہمارے عشق کی تاثیر کا
حسن آئینہ بنا ہے درد کی تصویر کا
ایک عرصہ ہو گیا فرہاد کو گزرے ہوئے
آؤ پھر تازہ کریں افسانہ جوئے شیر کا
گلستاں کا ذرہ ذرہ جاگ اٹھے عندلیب
لطف ہے اس وقت تیرے نالۂ شب گیر کا
لیجئے اے شیخ پہلے اپنے ایماں کی خبر
دیجئے پھر شوق سے فتویٰ مری تکفیر کا
خواب ہستی کو سمجھنے کے لیے بے چین ہوں
اعتبار آتا نہیں مجھ کو کسی تعبیر کا
جس نے دی آخر غرور حسن یوسف کو شکست
اللہ اللہ حوصلہ اس دست دامن گیر کا
توڑ کر نکلے قفس تو گم تھی راہ آشیاں
وہ عمل تدبیر کا تھا یہ عمل تقدیر کا
گو زمانہ ہو گیا گلزار سے نکلے ہوئے
ہے مزاج اب تک وہی ریحانئ دلگیر کا
ہینسن ریحانی
No comments:
Post a Comment