Urdu Deccan

Monday, May 24, 2021

خورشید رضوی

 یوم پیدائش 19مئی 1942


یہ جو ننگ تھے یہ جو نام تھے مجھے کھا گئے

یہ خیال پختہ جو خام تھے مجھے کھا گئے


کبھی اپنی آنکھ سے زندگی پہ نظر نہ کی

وہی زاویے کہ جو عام تھے مجھے کھا گئے


میں عمیق تھا کہ پلا ہوا تھا سکوت میں

یہ جو لوگ محو کلام تھے مجھے کھا گئے


وہ جو مجھ میں ایک اکائی تھی وہ نہ جڑ سکی

یہی ریزہ ریزہ جو کام تھے مجھے کھا گئے


یہ عیاں جو آب حیات ہے اسے کیا کروں

کہ نہاں جو زہر کے جام تھے مجھے کھا گئے


وہ نگیں جو خاتم زندگی سے پھسل گیا

تو وہی جو میرے غلام تھے مجھے کھا گئے


میں وہ شعلہ تھا جسے دام سے تو ضرر نہ تھا

پہ جو وسوسے تہہ دام تھے مجھے کھا گئے


جو کھلی کھلی تھیں عداوتیں مجھے راس تھیں

یہ جو زہر خندہ سلام تھے مجھے کھا گئے


خورشید رضوی


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...