یوم پیدائش 20 مئی 1939
لوگو ہم چھان چکے جا کے سمندر سارے
اس نے مٹھی میں چھپا رکھے ہیں گوہر سارے
زخم دل جاگ اٹھے پھر وہی دن یار آئے
پھر تصور پہ ابھر آئے وہ منظر سارے
تشنگی میری عجب ریت کا منظر نکلی
میرے ہونٹوں پہ ہوئے خشک سمندر سارے
اس کو غمگین جو پایا تو میں کچھ کہہ نہ سکا
بجھ گئے میرے دہکتے ہوئے تیور سارے
آگہی کرب وفا صبر تمنا احساس
میرے ہی سینے میں اترے ہیں یہ خنجر سارے
دوستو تم نے جو پھینکے تھے مرے آنگن میں
لگ گئے گھر کی فصیلوں میں وہ پتھر سارے
خون دل اور نہیں رنگ حنا اور نہیں
ایک ہی رنگ میں ہیں شہر کے منظر سارے
قتل گہہ میں یہ چراغاں ہے مرے دم سے بشیرؔ
مجھ کو دیکھا تو چمکنے لگے خنجر سارے
بشیر فاروقی
No comments:
Post a Comment