میری رہائی ہے یہاں اب کِس کے ہاتھ میں
جو قید ہو چکا ہوں میں اپنی ہی ذات میں
کرتا ہوں بات یوں تو بہت سوچ کر مگر
پھر نقص ڈھونڈتا ہوں میں اپنی ہی بات میں
سورج تلاش کرتا ہے دن بھر یہاں وہاں
جگنو بھی ڈھونڈتے ہیں اُسے رات رات میں
اُس نے دغا دیا تو نئی بات کیا ہوئی
اِک واقعہ ہے یہ بھی کئی واقعات میں
بازی لگا دی جان کی یہ جانتے ہوئے
مِلنی ہے مجھ کو جیت بھی اب میری مات میں
ذُلفی نہیں ہے تُو بھی مِرے مسئلے کا حل
تیرے سِوا ہیں اور بھی کچھ غم حیات میں
ذوالفقار علی ذُلفی
No comments:
Post a Comment