نہ دن کو چین پڑتا ہے نہ شب کو نیند آتی ہے
وہ خوشبو کی طرح میرے مشامِ جاں پہ چھائی ہے
کہ تا حدِ نظر چاروں طرف اک دھند چھائی ہے
بہار ِ شوق میں بھی گلستاں پر قہر طاری ہے
مرے چہرے پہ یونہی تو نہیں آئی یہ تابانی
حقیقت میں مجھے تیری محبت راس آئی ہے
وہ میرے سامنے ہو کر بھی کوسوں دور لگتا ہے
یہ کیسی آزمائش ہے یہ کیسی نارسائی ہے
ڈھلے گا آج کا یہ دن نہ جانے کس طرح میرا
سحر ہونے سے پہلے پھر کسی کی یاد آئی ہے
جو کل تک ہمنوا تھے بن گئے ہیں آج وہ دشمن
یہ کیسا دوستانہ ہے یہ کیسی ہمنوائی ہے
جو خود کرتا ہے اوروں کے لیے وہ کام رد کیوں ہے
خدا کا خوف کر واعظ یہ کیسی پارسائی ہے
اثر اس سنگِ دل کو فکر کیا اپنے اسیروں کی
اِدھر ہم خوں میں ڈوبے ہیں اُدھر وہ گل کھلاتی ہے
اثر کولوی
No comments:
Post a Comment