یوم پیدائش 04 مئی 1922
آخر آخر ایک غم ہی آشنا رہ جائے گا
اور وہ غم بھی مجھ کو اک دن دیکھتا رہ جائے گا
سوچتا ہوں اشک حسرت ہی کروں نذر بہار
پھر خیال آتا ہے میرے پاس کیا رہ جائے گا
اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ
جس دیے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائے گا
آج اگر گھر میں یہی رنگ شب عشرت رہا
لوگ سو جائیں گے دروازہ کھلا رہ جائے گا
تا حد منزل توازن چاہئے رفتار میں
جو مسافر تیز تر آگے بڑھا رہ جائے گا
گھر کبھی اجڑا نہیں یہ گھر کا شجرہ ہے گواہ
ہم گئے تو آ کے کوئی دوسرا رہ جائے گا
روشنی محشرؔ رہے گی روشنی اپنی جگہ
میں گزر جاؤں گا میرا نقش پا رہ جائے گا
محشر بدایونی
No comments:
Post a Comment