آ ، مرے دل، مرے غمخوار، کہیں اور چلیں
بھیڑ ہے بر سر, بازار کہیں اور چلیں
وہ جو پھولوں سے بھرا شہر ہوا کرتا تھا
اس کے منظر ہیں دل آزار، کہیں اور چلیں
سارے چہرے نظر آتے ہیں یہاں زیر,نقاب
یہ فضائیں ہیں پر اسرار، کہیں اور چلیں
ڈھونڈتے ہیں کوئی شاداب کشادہ گلشن
اب تو دم گھٹنے لگا یار، کہیں اور چلیں
جذبہء شوق سلامت ہے مگر ہائے، نصیب
اب کہاں کوچہء دلدار ،کہیں اور چلیں
( اعتبار ساجد )
No comments:
Post a Comment