اہلِ جہاں حریف ہمارے ہوئے تو کیا
ہم بھی ہیں آج وقت کے مارے ہوئے تو کیا
محراب و در کو پھر بھی اُجالے نہیں نصیب
آنگن میں میرے چاند ستارے ہوئے تو کیا
دل جب ہمارا خانۂ ویران ہو گیا
اُس وقت پورے خواب ہمارے ہوئے تو کیا
اب دید کی طلب ہے نہ ملنے کی آرزو
اُن کی طرف سے لاکھ اِشارے ہوئے تو کیا
پھولوں میں دِلکشی ہے نہ کلیوں پہ ہے نکھار
رنگین گلستاں کے نظارے ہوئے تو کیا
تابندگی نگاہ کی جب مر کے رہ گئ
اب آئیں وہ نقاب اُتارے ہوئے تو کیا
ہارا نہیں ہوں اب بھی محبّت کی جنگ میں
راہِ وفا میں مجھ کو خسارے ہوئے تو کیا
ساحل پہ لے کے جائے گا 'خالد' تمہارا عزم
دریا کے دور تم سے کنارے ہوئے تو کیا
خالد ندیم بدایونی
No comments:
Post a Comment