Urdu Deccan

Wednesday, May 12, 2021

نور الدین نور غوری

 یوم پیدائش 12 مئی 1954


اس طرح مصروف گر دست قضا رہ جائے گا

دیکھنا اک دن زمیں پر بس خدا رہ جائے گا


قید خانے میں بدلتی جا رہی ہے یہ زمیں

کیا یوں ہی یہ آسماں بس دیکھتا رہ جائے گا


خوف کی آندھی بجھا دے گی امیدوں کے دیئے

سوچتا ہوں قصر دل میں اور کیا رہ جائے گا


میرے اپنے ہی کریں گے یوں اگر طعنہ زنی

عمر بھر ہر زخم دل یوں ہی ہرا رہ جائے گا


خواب بن جائیں گی ساری محفلیں سب رونقیں

صرف کورونا کا ہر سو نقش پا رہ جائے گا


خاک میں مل جائے گی جب حوصلوں کی کہکشاں

بے بسی کا ٹمٹماتا بس دیا رہ جائے گا


نور ایسے موڑ پر لے آئی ہے اب زندگی

ہر کوئی اس موڑ پر تنہا کھڑا رہ جائے گا


نور الدین نور غوری


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...