یوم پیدائش 12 مئی 1954
اس طرح مصروف گر دست قضا رہ جائے گا
دیکھنا اک دن زمیں پر بس خدا رہ جائے گا
قید خانے میں بدلتی جا رہی ہے یہ زمیں
کیا یوں ہی یہ آسماں بس دیکھتا رہ جائے گا
خوف کی آندھی بجھا دے گی امیدوں کے دیئے
سوچتا ہوں قصر دل میں اور کیا رہ جائے گا
میرے اپنے ہی کریں گے یوں اگر طعنہ زنی
عمر بھر ہر زخم دل یوں ہی ہرا رہ جائے گا
خواب بن جائیں گی ساری محفلیں سب رونقیں
صرف کورونا کا ہر سو نقش پا رہ جائے گا
خاک میں مل جائے گی جب حوصلوں کی کہکشاں
بے بسی کا ٹمٹماتا بس دیا رہ جائے گا
نور ایسے موڑ پر لے آئی ہے اب زندگی
ہر کوئی اس موڑ پر تنہا کھڑا رہ جائے گا
نور الدین نور غوری

No comments:
Post a Comment