یوم پیدائش 12 مئی 1945
ہدف رکھے ہوئے ہے ایک ہی ہر وار پیچھے
پڑا ہے رات دن کوئی مرے پندار پیچھے
سمے نے چھین لی ہے سوچ بینائی مگر دل
برابر دیکھ لیتا ہے ابھی دیوار پیچھے
کہانی اوج امکانوں کی جانب بڑھ رہی تھی
کِیا کس کے کہے پر مرکزی کردار پیچھے
اور اب دستار دے کر سر بچائے جا رہے ہیں
کبھی کٹوا دیے جاتے تھے سر دستار پیچھے
ابھی تک سوچ اندھیاروں کی وحشت حکمراں ہے
کہا کس نے کہ انساں چھوڑ آیا غار پیچھے
چُنی ہے اپنی مرضی سے دلِ درویش نے جو
علم لہرا رہا ہے جِیت کا اُس ہار پیچھے
پسِ حرف و صدا عکسِ رجا یوں جھلملائیں
لِشکتی جھیل ہو جیسے گھنے اشجار پیچھے
سخن میں تو رہے وہ شہرِ خواب آباد عالی
قلم آگے نظر آئے جہاں تلوار پیچھے
جلیل عالی
No comments:
Post a Comment