یوم پیدائش 15 مئی 1983
کل صبج دیا رکھ دیا یوں میں نے افق پر
جلتا تھا جو سورج کی طرح بامِ فلک پر
کر دیتی ہے موجودگی تنہائی پہ افشاء
آتا ہے بہت غصہ مجھے اپنی مہٙک پر
تجھ رنگ سے واقف جو نہ ہوتی مری آنکھیں
انگشت بدندان میں ہو جاتا دھنک پر
تارا ہوں غلط برج کا کیا میرا مقدر
مٙیں ٹک نہیں پاتا کسی ابجد میں ، ورٙق پر
شاید کہ نکل آئیں محبت کے معانی
اک نظم اگر لکھوں میں عورت کی جھجھک پر
لا پاتا نہیں روح تلک کھینچ کے خود کو
گھس جاتا ہے یہ سارا بدن اندھی سڑک پر
گلیوں میں اندھیرے کا رہا گشت مسلسل
پر اپنا عقیدہ رہا جگنو کی چمک پر
تو سارے کا سارا تو مجھے ہضم نہ ہو گا
بھاری ہیں فقط آنکھیں مرے چودہ طبق پر
کیوں اِس سے ہر اک ذائقہ یہ زہر کی رد کیوں؟
پہنچے ہی نہیں فلسفی گل رازِ نمک پر
گل جہاں
No comments:
Post a Comment