یوم پیدائش 19 جون 1958
وہ خود سری ہے نگاہوں سے التجا نہ ہوئی
کہ ہم سے رسمِ جہاں آج تک ادا نہ ہوئی
یہ انتہا پہ بنی اور انتہا نہ ہوئی
کہ اب کی بار بھی دنیا کی ابتدا نہ ہوئی
سدا دیا مجھے طوفاں کی موج نے ساحل
شکستہ ناؤ مری صرفِ ناخدا نہ ہوئی
اِسے نہ شکوہ سمجھ ! سادہ زندگی میری
ہزار بار ملی اور آشنا نہ ہوئی
ابھی ملے بھی نہیں تھے کہ وہ بچھڑ بھی گئے
کسی فسانے کی یہ کوئی ابتدا نہ ہوئی
کہا کہ جا ترا دنیا میں اب نہیں حصہ
مرے عمل کی مگر یہ کوئی جزا نہ ہوئی
سمجھ سکا نہ مقرر دلوں کے بھید وہاں
کہ مدتوں سے لگی بھیڑ ہمنوا نہ ہوئی
مزہ تو جب ہے تری فکرِ بازگشت بنے
جو لوٹ کر نہیں آئے تو وہ صدا نہ ہوئی
بس اتنی بات پہ محشر میں تھے سوال و جواب
جو میں پکارا کہ مجھ سے کوئی خطا نہ ہوئی
ارشد غازی
No comments:
Post a Comment