کب ہُوا احساس اُس کو کچھ بھی میرے پیار کا
مجھ سے ہے اب تک رویہ غیر جیسا یار کا
تھی مجھے امید اُس سے تو وفاٶں کی مگر
وہ بھی جانبدار نِکلا راہ کی دیوار کا
بعد اُس کے نیند بھی آنکھوں سے رُوٹھی ہی رہی
دل نشانہ یوں ہُوا ہے اِک نظر کے وار کا
لگ گئی ہے اُس کو بھی شاید زمانے کی ہوا
بدلا بدلا ہے جو لہجہ آج کل دِلدار کا
اُس سے کہنا اب خدارا ضِد کو اپنی چھوڑ دے
درد حد سے بڑھ گیا ہے ہجر کے بیمار کا
پڑھ کے میری اِک غزل اُس کو یہ کہنا ہی پڑا
ذائقہ سب سے الگ ہے آپ کے اشعار کا
جاتے جاتے اُس نے ذُلفی درس مجھ کو یہ دیا
پھر بھروسا بھی نہ کرنا یوں کِسی کے پیار کا
ذوالفقار علی ذُلفی
No comments:
Post a Comment