شعر کہنا کہاں سہل ٹھہرا
تیری زلفوں کا ایک بل ٹھہرا
عمر بھر سر جسے نہ کر پایا
تُو محبت کا وہ جبل ٹھہرا
تیرے دل میں مری محبت ہے
یہ مرے ذہن کا خلل ٹھہرا
تیرے پاؤں میں ہے بھنور شاید
آج ٹھہرا ہے تُو نہ کل ٹھہرا
میرا جانا اشد ضروری ہے
تیرا اصرار ہے تو چل ٹھہرا
دور ہو جائیں ہم سدا کیلئے
اپنی رنجش کا کیسا حل ٹھہرا
اب نہ تجدیدِ دوستی ہو گی
فیصلہ یہ ترا اٹل ٹھہرا
میں نے تبدیل کر کے دیکھا ہے
درد ہی درد کا بدل ٹھہرا
میرے اشکوں کی قدر کون کرے
مسکرانا ترا غزل ٹھہرا
آ گیا ہے تُو لوٹ کر عابدؔ
یہ مرے صبر کا ہی ۔۔ پھل ٹھہرا
ایس،ڈی،عابدؔ
No comments:
Post a Comment