یوم پیدائش 29 مئی 1973
ہر ایک گام پہ صدیاں نثار کرتے ہوئے
میں چل رہا تھا زمانے شمار کرتے ہوئے
یہی کھلا کہ مسافر نے خود کو پار کیا
تری تلاش کے صحرا کو پار کرتے ہوئے
میں رشک ریشۂ گل تھا بدل کے سنگ ہوا
بدن کو تیرے بدن کا حصار کرتے ہوئے
مجھے ضرور کنارے پکارتے ہوں گے
مگر میں سن نہیں پایا پکار کرتے ہوئے
میں اضطراب زمانہ سے بچ نکلتا ہوں
تمہارے قول کو دل کا قرار کرتے ہوئے
جہان خواب کی منزل کبھی نہیں آئی
زمانے چلتے رہے انتظار کرتے ہوئے
میں راہ سود و زیاں سے گزرتا جاتا ہوں
کبھی گریز کبھی اختیار کرتے ہوئے
نہیں گرا مری قاتل انا کا تاج محل
میں مر گیا ہوں خود اپنے پہ وار کرتے ہوئے
میں اور نیم دلی سے وفا کی راہ چلوں
میں اپنی جاں سے گزرتا ہوں پیار کرتے ہوئے
یقین چھوڑ کے نیر گماں پکڑتا رہا
نگاہ یار ترا اعتبار کرتے ہوئے
شہزاد نیر
No comments:
Post a Comment