Urdu Deccan

Tuesday, June 1, 2021

ناصر معین

 یوم پیدائش 29 مئی 1961


حشر ایسا ہوا نہیں ہوتا

ایک ہوتے تو کیا نہیں ہوتا


مل کے رہتے تو زندگی رہتی 

پست پھر حوصلہ نہیں ہوتا


جھوٹ رسوائیاں ہی دیتا ہے

شرم سے سر جھکا نہیں ہوتا


ہم جو ماں کی دعائیں لے لیتے

آ ج دامن میں کیا نہیں ہوتا


موت پر ماں کی کتنا روئے تھے

حد ہے ! اب تذکرہ نہیں ہوتا


آج انسانیت ہے شرمندہ

خون بھی خون کا نہیں ہوتا


میں بھی دیتا دغا نہیں تجھکو

کاش ! تو بے وفا نہیں ہوتا


تو نے جاناں مجھے نہیں جانا

ورنہ ہر گز خفا نہیں ہوتا


آپ میں ، ہم میں ہی کمی کچھ ہے

  یوں زمانہ برا نہیں ہوتا

 

وقت کب کس کا ساتھ دیتا ہے ؟

 بادشہ یوں گدا نہیں ہوتا 


ایسے حالات آہی جاتے ہیں

ہر بشر بے وفا نہیں ہوتا


اس کو لذت ملی محبت کی

عشق میں سر جھکا نہیں ہوتا


اعلیٰ کردار اپنا ہوتا جو

انہیں قدموں میں کیا نہیں ہوتا


قرب تقوے سے پاؤ گے ناصر

پاس سب کے خدا نہیں ہوتا 


ناصرمعین


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...