یوم پیدائش 29 مئی 1961
حشر ایسا ہوا نہیں ہوتا
ایک ہوتے تو کیا نہیں ہوتا
مل کے رہتے تو زندگی رہتی
پست پھر حوصلہ نہیں ہوتا
جھوٹ رسوائیاں ہی دیتا ہے
شرم سے سر جھکا نہیں ہوتا
ہم جو ماں کی دعائیں لے لیتے
آ ج دامن میں کیا نہیں ہوتا
موت پر ماں کی کتنا روئے تھے
حد ہے ! اب تذکرہ نہیں ہوتا
آج انسانیت ہے شرمندہ
خون بھی خون کا نہیں ہوتا
میں بھی دیتا دغا نہیں تجھکو
کاش ! تو بے وفا نہیں ہوتا
تو نے جاناں مجھے نہیں جانا
ورنہ ہر گز خفا نہیں ہوتا
آپ میں ، ہم میں ہی کمی کچھ ہے
یوں زمانہ برا نہیں ہوتا
وقت کب کس کا ساتھ دیتا ہے ؟
بادشہ یوں گدا نہیں ہوتا
ایسے حالات آہی جاتے ہیں
ہر بشر بے وفا نہیں ہوتا
اس کو لذت ملی محبت کی
عشق میں سر جھکا نہیں ہوتا
اعلیٰ کردار اپنا ہوتا جو
انہیں قدموں میں کیا نہیں ہوتا
قرب تقوے سے پاؤ گے ناصر
پاس سب کے خدا نہیں ہوتا
ناصرمعین
No comments:
Post a Comment