Urdu Deccan

Thursday, June 24, 2021

ادا جعفری

 ایک آئینہ رو بہ رو ہے ابھی

اس کی خوشبو سے گفتگو ہے ابھی


وہی خانہ بدوش امیدیں

وہی بے صبر دل کی خو ہے ابھی


دل کے گنجان راستوں پہ کہیں

تیری آواز اور تو ہے ابھی


زندگی کی طرح خراج طلب

کوئی درماندہ آرزو ہے ابھی


بولتے ہیں دلوں کے سناٹے

شور سا یہ جو چار سو ہے ابھی


زرد پتوں کو لے گئی ہے ہوا

شاخ میں شدت نمو ہے ابھی


ورنہ انسان مر گیا ہوتا

کوئی بے نام جستجو ہے ابھی


ہم سفر بھی ہیں رہ گزر بھی ہے

یہ مسافر ہی کو بہ کو ہے ابھی


ادا جعفری


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...