Urdu Deccan

Thursday, June 24, 2021

نسیم نازش

 اب ہمیں تیری تمنا نہیں ہے

آنکھ کو ذوق تماشا نہیں ہے


جانے کیوں ڈھونڈ رہے ہیں ہم تم

وہ جو تقدیر میں لکھا نہیں ہے


یوں سر راہ گزر بیٹھے ہیں

جیسے ہم کو کہیں جانا نہیں ہے


پھر یہ کیوں خاک سی اڑتی ہے یہاں

دل کے اندر کوئی صحرا نہیں ہے


شہر والو کبھی اس کو بھی پڑھو

وہ جو دیوار پہ لکھا نہیں ہے


اس کو کمتر نہ سمجھنا لوگو

وہ جسے خواہش دنیا نہیں ہے


ہم کو ہے قرب میسر کا نشہ

ہم کو اندیشۂ فردا نہیں ہے


یہ گزرتا ہوا اک سایۂ وقت

قاتل عمر ہے لمحہ نہیں ہے


تہہ میں رشتوں کی اتر کر دیکھو

کون اس دہر میں تنہا نہیں ہے


ہجر کا تجھ کو ہے شکوہ تو نے

معنیٔ عشق کو سمجھا نہیں ہے


گم ہوئے کتنے ہی بے نام شہید

جن کا تاریخ میں چرچا نہیں ہے


تو ہے بیگانہ تو کیا تجھ سے گلہ

کوئی دنیا میں کسی کا نہیں ہے


کر گئے خوف خزاں سے ہجرت

پیڑ پر کوئی پرندہ نہیں ہے


زیست میں ہم نے بچا کر کچھ وقت

کبھی اپنے لئے رکھا نہیں ہے


ہم ہیں اس عہد میں زندہ جس کا

جسم ہی جسم ہے چہرہ نہیں ہے


تم نہ ہو گے تو جئیں گے کیسے

ابھی اس بارے میں سوچا نہیں ہے


کیسی محفل یہ سجی ہے نازشؔ

کوئی بھی میرا شناسا نہیں ہے


نسیم نازش


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...