امن کیسے ہوا اس دیش کا غارت لکھنا
اے مؤرخ تو سبب اس کا سیاست لکھنا
جھوٹ کیسے چڑھا پروان اگر لکھو گے
تو بلا خوف صحافت کی بدولت لکھنا
مت غریبوں کے مسائل پہ چلا اپنا قلم
پر امیروں کے قصیدے تو کبھی مت لکھنا
اک جہالت ہی سبب ہے مری بد حالی کا
یہ حقیقت ہے تو پھر کیوں نہ حقیقت لکھنا
اب کے نسخہ جو لکھو تو اے طبیبو اس پر
کیوں سدھرتی نہیں بیماروں کی حالت لکھنا
اس کو تخلیق کیا رب نے محبت کے لئے
دل پہ پھر کس لئے نفرت کی عبارت لکھنا
لکھتا ہوں لکھ کے مٹا دیتا ہوں پھر لکھتا ہوں
شاید آتا ہی نہیں مجھ کو شکایت لکھنا
میری بربادی کا افسانہ جو تحریر کرو
صاف لفظوں میں وجہ اسکی محبت لکھنا
شاد بک جائے جو آسانی سے منہ مانگے دام
کس لئے مال پہ پھر مال کی قیمت لکھنا
شمشاد شاد
No comments:
Post a Comment