دِل کے آئینے میں جو بھی تصویر تھی مُو قلم کا مُصّوِر کے تھا بانکپن
آنکھ کی پُتلیوں میں تھرکتے ہُوئے نوجواں لڑکیوں کے سُنہرے بدن
کوئی دوشیزہ تھی بال کھولے ہُوئے ساحلِ بِحر پر چاندی رات میں
جیسے کُہرے کی چادر میں لِپٹی ہُوئی کَسمُساتی ہُوئی چاندنی کی کِرَن
خواہِشوں کے جزیروں میں بھٹکے ہُوۓ جسقدر جِسم تھے وہ ہم آغوش تھے
اپنے عِشرتکدوں کی جواں رات میں قُرب کے بیکراں نشے میں تھے مگن
سُرخ جوڑوں میں لِپٹی ہُوئی لڑکیاں جِن کے چہروں پہ تھی ایک وحشت عیاں
اِسلئے کیُونکہ اُنکے مجازی خُدا باندھ کر چلدئیے تھے سَروں سے کفن
اِک سُلگتی ہُوئی شمع کے قُرب میں کُچھ پتنگے جلے تھے جہاں راکھ تھی
راکھ کیا تھی سُلگتی ہُوئی آگ تھی پُھونک کر رکھ دیے مَخملیِں پیرہَن
شِدّتِ جذبِ اُلفت سے خاموش تھے کِتنے تھے بِن پیے ہی جو مدہوش تھے
روشنی کے سمُندر میں ڈُوبے ہُوئے خُوشبؤں میں نہائے ہُوئے مَرد و زَن
محمد عارف
No comments:
Post a Comment