یوم پیدائش 01 جون 1938
یوں تو ہر چھب وہ نرالی وہ فسوں ساز کہ بس
ہائے وہ ایک نگاہ غلط انداز کہ بس
دیکھنے والو ذرا رنگ کا پردہ تو ہٹاؤ
سینۂ گل پہ ہے زخموں کا وہ انداز کہ بس
دل کے داغوں کو چھپایا تو ابھر آئے اور
رازداری ہی نے یوں کھول دیئے راز کہ بس
ہم نے بخشی ہے زمانے کو نظر اور ہمیں
یوں زمانے نے کیا ہے نظر انداز کہ بس
رنج و غم عشق و جنوں درد و خلش سوز و فراق
ایسے ایسے ملے خاورؔ ہمیں دم ساز کہ بس
خاور رضوی
No comments:
Post a Comment