یوم پیدائش 01 جون 1923
بے محل ہے گفتگو ہیں بے اثر اشعار ابھی
زندگی بے لطف ہے نا پختہ ہیں افکار ابھی
پوچھتے رہتے ہیں غیروں سے ابھی تک میرا حال
آپ تک پہنچے نہیں شاید مرے اشعار ابھی
زندگی گزری ابھی اس آگ کے گرداب میں
دل سے کیوں جانے لگی حرص لب و رخسار ابھی
ہاں یہ سچ ہے سر بسر کھوئے گئے ہیں عقل و ہوش
دل میں دھڑکن ہے ابھی دل تو ہے خود مختار ابھی
کیوں نہ کر لوں اور ابھی سیر بہار لالہ زار
میں نہیں محسوس کرتا ہوں نحیف و زار ابھی
حبیب تنویر
No comments:
Post a Comment